داد بیداد۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔انسا نی حقوق کا آئینہ
پا کستانی دفتر خا رجہ کے تر جمان نے امریکی حکومت کی طرف سے جا ری کر دہ تازہ رپورٹ میں بعض اسلامی ملکوں کے اندر انسا نی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو مسترد کر تے ہوئے رپورٹ کو متنا زعہ اور متعصبانہ قرار دیا ہے تر جمان نے یا د دلا یا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے اور کشمیر میں بھا رت کی طرف سے انسا نی حقوق کی سنگین خلا ف ورزیوں کا ذکر رپورٹ میں نہیں آیا اس طرح جن ملکوں میں امریکہ کی کٹھ پتلی حکومتیں قائم ہیں ان مما لک میں انسا نی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا کوئی ذکر اس رپورٹ میں نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رپورٹ کسی تحقیق، سروے یا فیلڈ رپورٹ کی بنیا د پر نہیں بنا ئی گئی اور رپورٹ مر تب کرنے والوں نے ذرائع ابلا غ کی خبروں سے بھی استفادہ نہیں کیا اس طرح تمام تر قواعد اور قوانین سے انحراف کر کے اپنی پا لیسی اور مرض کی رپورٹ مر تب کی گئی جو ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتی، یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی ملک کی قومی حکومت نے امریکی رپورٹ کو مسترد کیا اور مسترد کرنے کی ٹھو س وجو ہا ت بھی میڈیا کے سامنے رکھتے ہوئے ایسا کیا، اس سے پہلے بھی چین، ایران اور شما لی کوریا نے کئی بار امریکی رپورٹوں کو دلا ئل کے ساتھ مسترد کیا ہے پاکستان اور افغانستان نے بھی ایسی بے بنیاد رپورٹوں پر سوال اٹھا یا ہے حقائق سے بے خبر لو گوں کو انگریزی میں لے مین (Lay Men) کہا جا تا ہے اردو میں اس طبقے کو عام شہری کا نا م دیا جا تا ہے جو کسی بھی ملک میں 80فیصد سے زیا دہ آبادی پر مشتمل ہوتا ہے یہ طبقہ ایسی رپورٹوں سے متا ثر ہوتا ہے اس طبقے کو فنی اور تکنیکی لوا زمات کا پتہ نہیں ہوتا مثلا ً انسا نی حقوق کا سروے کرنا ایک فنی اور تکنیکی کام ہے اس کا م کی باقاعدہ تر بیت ہو تی ہے اس کے لئے انسا نی حقوق کے پیما نے متعین کئے جا تے ہیں کتنے لو گ مارے جا تے ہیں کتنے لو گ زخمی اور معذور کئے جا تے ہیں کتنے لو گوں کو بے گھر کیا جاتا ہے متا ثر ہونے والوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد کتنی ہو تی ہے اور بوڑھوں یا بیماروں کی تعداد کتنی ہو تی ہے؟ انسا نی حقوق کے پیما نوں میں ایک اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ متاثرین میں کتنے لو گوں کو عدالتوں سے انصاف ملتا ہے؟ کتنے لو گوں تک ذرائع ابلا غ کو رسائی دی جا تی ہے اور کتنے متا ثرین کو انسا نی حقوق کی تنظیموں تک رسائی کا حق دیا جا تا ہے ان تما م پیمانوں کو سامنے رکھ کر فیلڈ میں سروے کرنے والوں کو مختلف شعبوں کے ما ہرین کے ذریعے ٹریننگ دی جا تی ہے ٹریننگ دینے والوں میں وکلا ء، ڈاکٹر، اخبار نویس اور سما جی شعبے کی تحقیق میں پی ایچ ڈی کرنے والے تجربہ کار ما ہرین شامل ہوتے ہیں، فیلڈ سروے کی ٹیم میں بھی 10شمار کنندگان کی سربراہی ایک تجر بہ کار وکیل، ڈاکٹر یا پرو فیسر کے ذمے ہوتی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر شما ر کند گان کے کام کی باقاعدہ نگرانی کر کے غلطیوں کی اصلا ح کرتا ہے اور رپورٹ کو قابل قبول بنا نے کی ہر ممکن کوشش کرتاہے، یہ پیشہ ور ما ہرین کی رپورٹ کا عالمی معیار ہے، رپورٹ کی دوسری قسم وہ ہو تی ہے جس کے لئے عالمی معیار کی پا بندی نہیں کی جا تی بلکہ ایک فرم یا کمپنی کی خد مات حا صل کرکے اس کے ذمے یہ کام لگا یا جا تا ہے کہ تم فلاں ملک کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ٹھہراؤ اور رپورٹ بنا کر پیش کرو، اس کو فنی طورپر پا لیسی اور نیٹڈ رپورٹ یعنی اپنی مر ضی کی رپورٹ کہتے ہیں دنیا ادھر سے ادھر ہو جا ئے تم نے رپورٹ اپنی مر ضی کی بنا ئی ہے سگریٹ، سافٹ ڈرنکس، صابن اور شمپو بنا نے والی کمپنیاں اس طرح کی رپورٹیں بنواتی ہیں اگر امریکی حکومت کو انسا نی حقوق کے حوالے سے غیر جا نبدارانہ رپورٹ بنا نے کی ہمت ہوتی تو ما ہرین کی خد مات حا صل کر تی، ما ہرین کے سامنے سب سے پہلے غزہ میں انسا نی حقوق کا مسلہ آجا تا اور یہ بھی لکھا جاتا کہ غزہ میں 6مہینوں کے اندر 50ہزار فلسطینیوں کا قتل عام ہوا قتل ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی تعداد 20ہزار تھی، ہسپتالوں، سکولوں اور عبادت گاہوں پر حملے ہوئے امریکی حکومت نے دہشت گردوں کو اسلحہ، جہاز اور ٹینک فراہم کئے دہشت گردوں کی مدد کے لئے نقد امداد بھی فراہم کی اس لئے انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ کی ساکھ بری طرح متا ثر ہوئی، اس طرح ما ہرین کی ٹیم کشمیر اور یو کرین میں امریکہ کی مدد سے انسانی حقوق کی پے درپے خلا ف ورزیوں کے درست اعداد و شمار اس رپورٹ میں درج کر تی، یہ رپورٹ انسا نی حقوق کا آئینہ ہو تی لیکن ایسا نہ ہو سکا، پا کستانی دفتر خار جہ نے ایک بار پھر اس یک طرفہ رپورٹ کو مسترد کر کے بروقت قدم اُٹھا یا ہے سول سو سائیٹی کو دفتر خا رجہ کے مو قف کی بھر پور حما یت کر نی چاہئیے۔