معاشرہ اس وقت جنت نظیر بن جاتا ہے جب زیردست اور زبردست کا تصور صرف تصور رہ جاتا ہے۔ادمیت کا احترام ہوتا ہے۔مایوسیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ہمارا معاشرہ کچلا ہوا معاشرہ ہے یہاں پر مطلق العنانی رہی ہے۔۔ریاست ریاستی حکمرانی، بادشاہت بادشاہ کی ریشہ دوانیاں، جاگیرداری جاگیردار کی من مانیاں یہ سب اس نسل کے خون میں شامل ہیں۔۔۔آزادی ذہن کی آزادی کا نام ہے بندہ فکری، ذہنی اور عمل کے لحاظ سے آزاد ہوتب اس کانام آزادی ہے۔۔وہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ حق کیاہے ناحق کیا۔۔۔سچ کیا ہے جھوٹ کیا۔۔۔ہمارے ہاں اب بھی فکری آزادی نہیں۔۔کچھ وہ رٸیس زادے ہیں جو انانیت کے شکار ہیں کچھ باغی کوفت زادہ آزاد ہیں جن کے خون میں نفرت بھری ہوٸی ہے یہ نفرت منافقت بن جاتی ہے کہ بڑے کے سامنے چاپوسی اورتعریفیں اور پیٹھ پیچھے گالیاں۔۔یہ انداز محبت اوراحترام جو معاشرے کی بنیاد ہے اس کو کھا جاتا ہے۔معاشرہ اس گردو غبار سے اٹا ہوا ہے چیرہ دستوں کی چیرہ دستیاں ایک روگ ہیں۔ان کو نۓ اسطلاح میں”قبضہ مافیا“ کہاجاتا ہے۔۔یہ قبضہ مافیااگر ٹھیکہ داروں کاگروپ ہے توان کے ذمے کے کام کا کوٸی پوچھے گا نہیں کوٸی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام ادھورا کیوں ہے؟۔یہ مافیا پوچھنے والوں کو اعتماد میں لے گا۔۔ یہ پوچھنے والے مضبوط عوام ہوتے ہیں یا یہ وہ ذمہ دار ہوتے ہیں جو کسی انجینیر کو، کسی ایکس سی این کو، کسی ڈپٹی کمشنر کو، وزیر ممبر کو، محکمے کو پوچھناہوتاہے۔۔۔مگر پوچھنے کا مجاز بھی اگر کوٸی ہے تو وہ کتراۓ گا اس لیے کہ اس میں اس کی ذات اور ذاتی مفاد شامل ہوگا۔۔۔عوام کون ہوتے ہیں پوچھنے والے۔۔۔بیس تیس کلومیٹر لمبی تورکھو روڈ میں 12 سال میں دو کلومیٹر کام ہوگا پوچنے والا کوٸی نہیں ہوگا۔چترال میں سنگور آر سی سی پل دو مہینے میں مکمل ہوگا۔ مہینگاٸی آۓ گی پلک جھپکنے میں قیمتیں آسماں کو چھوٸیں گی ارزانی آۓ گی مگر قیمتیں ایسی کی تیسی رہیں گی پوچھنے والا کوٸی نہیں ہوگا۔۔شہر میں انتظامیہ بیٹھا ہواہوگا۔۔لاکھوں روپے کی گاڑی میں بازارمیں سے گزرے گا لیکن ان کو احساس نہیں ہوگا کہ بازار میں ٹماٹر کی قیمت سبزی فروش خود لگاتا ہے۔پولیس کلف زادہ وردی میں باہر نکلے گی لیکن ٹیکسی والا اپنا کرایہ خود متعین کرے گا۔عوام دھاٸیاں دے گا تو یہ من مانیاں کرے گا اس لیے کہ کہیں چیرہ دست خفا نہ ہوجاۓ۔۔ہمارے ہاں ذمہ داری ”پاور“ ہے ”خدمت“ نہیں۔۔کوٸی ذمہ دار یہ نہیں سوچتا کہ اس ذمہ داری کے عوض اسے رزق ملتا ہے اور کل قیامت کے دن اسے اللہ کے حضور حساب بھی دینا ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ سب سے مشکل کام یہ ہے کہ غلام کو یہ باور کرانا کہ تم غلام ہو۔۔۔ہٹلر نے کہا تھا کہ”عوام کو نعروں سیبیوقوف بنایاجا سکتاہے“ یہ بالکل سچ ہے کوٸی فرد اجتماعیت کا نہیں سوچتا۔یہی انفرادیت اور چاپلوسی ہے جس سے غلامی جنم لیتی ہے۔۔مافیا جنم لیتا ہے۔دھندے سراٹھاتے ہیں اور اسی ماحول کو افراتفری کا نام دیا جاتا ہے۔اس الیکشن مہم میں ہم نے کسی بڑے لیڈر کو خوبصورت سیاسی بیانیہ پیش کرتے ہوۓ، اپنا عزم بیان کرتے ہوۓ، کسی بڑے مسلے کو حل کرنے کا وعدہ کرتے ہوۓ نہیں دیکھا اور ان کے ساتھ جو ”کھتہ“ تھا وہ بس بھنبھناتا اور نعرے لگاتا رہتا۔شاید یہ منظر بھی اسی طرح رہیگا کوٸی درینہ مسلہ حل ہونے والا نہیں کوٸی لیڈر اپنا دامن دھندوں سے بچانہیں سکے گا۔ کوٸی ایسالیڈر ہو کہ سب کو ساتھ ملانے کی کوشش کرے قوم اور علاقے کے درینہ مسلوں کو حل کرنے کی کوشش کرے۔اگر نہ ہو تو قوم اس طرح دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہے گی اس لیے کہ تجربہ بتاتا ہے۔۔۔کہ ”حسب اختلاف“ میں بیٹھنے والے کو کچھ نہیں ملتا۔۔۔کیا جمہوریت اسی کانام ہے کیا حسب اختلاف میں بیٹھے ہوۓ ممبر کے پاس مینڈیٹ (حمایت)نہیں ہے کیا وہ کسی کی نماٸندگی کرنے نہیں آیا۔کیا اس کے علاقے کو بس محروم رکھا جاۓ گا۔۔سوال ہمارے نماٸندوں کی صلاحیتوں پہ بھی اٹھتاہے اوران کی لیڈرشپ پہ بھی۔۔۔کیا وہ ان چیرہ دستوں کے سامنے بے بس ہیں۔۔۔یہ محرومی کہیں بم کی طرح پھٹ نہ جاۓ اور کسی انقلاب کا پیش خیمہ نہ ہو
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات