وطن عزیز پاکستان میں جمہوریت 76سالوں سے چلی آرہی ہے بلدیاتی ادارے بھی ووٹ سے چلتے ہیں وفاقی اور صو بائی حکومتیں بھی ووٹ سے چلتی ہیں 76سالوں کے تجربے کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہمارے سیا ستدانوں کا با ہمی تعلق اور رویہ وکیلوں جیسا ہو نا چاہئیے، وکلا عدالت کے سامنے ایک دوسرے کی شدید مخا لفت کر تے ہیں ان کی تندو تیز گفتگو کو دیکھ کر سادہ لو ح لو گوں کو لگتا ہے کہ یہ دشمن بن گئے، مگر عدالت سے با ہر آکر دونوں جگری دوستوں کی طرح ملتے ہیں عدالت کے اندر جو کچھ ہوا وہ ان کی پیشہ ورانہ مجبوری تھی ان کے پیشے کا تقا ضا تھا سماجی زندگی پراس کا اثر کبھی نہیں پڑے گا دوسیا ست دانوں کا بھی ایسا ہی حال ہو تا ہے پا رلیمنٹ کے اندر قانون سازی میں بحث مبا حثہ کی باری آئے تو تندو تیز جملوں کا تبا دلہ کر تے ہیں اسمبلی ہال سے با ہر آکر ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں پارلیمانی بحث مبا حثہ ان کی پیشہ ورانہ زند گی کا خا صہ ہوتا ہے اس کو وہ اپنی معاشرتی زند گی کا حصہ نہیں بنا تے با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جنا ح کے سوانح نگا روں نے لکھا ہے کہ انگلینڈ میں قیام کے دوران وہ برطانوی پا رلیمنٹ کی گیلری میں بیٹھ کر پا رلیمانی مبا حثے بڑے شوق سے سنتے تھے، ان کی سیا سی تر بیت میں بر طانوی پارلیمنٹ کے اندر ہونے والے مبا حثوں کا بڑا کردار تھا وطن عزیز کے سیا ستدانوں میں 76سالوں کے تجربات کے بعد بھی وہ جذبہ پیدا نہیں ہوا جو وکیل اور سیا ستدان کا جذبہ ہوا کر تا ہے وہ پارلیمنٹ میں اپنا منشور سامنے رکھ کر اپنی پارٹی کی پا لیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے مخا لف فریق کے ساتھ گرما گرم بحث کرتا ہے با ہر آکر اس کا گہرا دوست بن جا تا ہے اس کا نام سیا ست بھی ہے وکالت بھی، سیا ست دان حقیقت میں اپنی قوم اور اپنی پارٹی کا وکیل ہو تا ہے افغانستان کی پارلیمانی لغت میں اسمبلی کے رکن کو وکیل ہی کہا جا تا ہے سیا ست اور وکا لت کا بنیا دی تقا ضا یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور عدالت کے با ہر مخا لف پارٹی کے ساتھ دوستی، بھائی چارے اور ہمدردی کاسلوک روا رکھا جائے، اس کے لئے دل کا بڑا ہونا اور دما غ کا کشا دہ ہونا لا زمی شرط ہے ہمارے ہاں الیکشن کمیشن آف پا کستان کی طرف سے جنوری 2024میں رجسٹرڈ سیاسی جما عتوں کی جو فہرست جا ری کی گئی ہے اس کی رو سے175 سیا سی پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں سیا سی جما عتوں کی تعداد کا زیا دہ ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہمارے ہاں 175پارٹیوں کا مطلب 175اقسام کی دشمنیوں کو پا لنا اور آگے بڑھا کر انتقام تک لے جا نا ہے گویا اس کا سیدھا سیدھا مطلب گھر کو آگ لگانا ہے کیونکہ سیا ست کو جا نی دشمنی کا مترادف سمجھا جا تا ہے سیا سی مخا لفت کو جا نی دشمنی کا جا مہ پہنا یا جا تا ہے اور دشمنی کے انداز میں آگے بڑھا یا جا تا ہے 1958میں اگر سیا ست کو ذاتی دشمنی سمجھا جا تا تھا تو کسی حد یہ بات ملک کے اندر رہتی تھی، بیرونی دنیا کے ساتھ رسل ورسائل کے ذرائع محدود تھے 2024میں پوری دنیا لمحہ بہ لمحہ دیکھ رہی ہے کہ 8فروری کو پا کستان میں انتخا بات ہوئے کامیاب اراکین پارلیمنٹ کی فہرست کب شائع ہوگی؟ اسمبلیوں کا اجلا س کب ہو گا؟ سپیکر کا انتخا بات کب ہو گا، قائد ایوان کا انتخا ب کب ہو گا؟ اگر ہمارے سیا ستدان اخباروں، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھا لتے رہے تو دنیا کیا کہے گی؟ یقینا دنیا کو پتہ لگ جا ئے گا کہ یہ لو گ جمہوریت کے اہل نہیں ہیں ان میں سیا سی شعور نہیں ہے ان میں سیا سی بلو غت کی کمی ہے دنیا یہ نتیجہ بھی اخذ کرے گی کہ پا کستان میں مارشل لا ء سیا ستدانوں کی ہٹ دھر می کے نتیجے میں آتاہے اور ملک ٹوٹتا بھی اسی وجہ سے ہے ذرا سو چو دنیا کیا کہے گی!