چند مسائل کئی سالوں سے حل طلب ہیں کئی حکومتیں آئیں مگر کسی حکومت نے ان مسائل کو حل نہیں کیا ایک مسئلہ بڑا گھمبیر تھا اس مسئلے کو 1984میں سپریم کورٹ نے ایک حکم کے ذریعے حل کر دیا مسئلہ یہ تھا کہ یو نیورسٹیوں اور کا لجوں میں طلبہ کے یونین تھے جو کمرہ جما عت میں سبق پرھنے نہیں دیتے تھے، امتحا نی ہال میں امتحا ن لینے نہیں دیتے تھے ہر سال کئی مہینوں کے لئے تعلیمی اداروں کوبند کر وایا جا تاتھا، سپریم کورٹ نے طلبہ یو نین پر پا بندی لگا ئی تو تعلیمی اداروں میں امن قائم ہوا پا بندی کے بعد اکا دکا واقعات نسل پرست اور فرقہ ورانہ تنظیموں کی طرف سے کبھی کبھا رہوتی ہیں تعلیمی اداروں کے امن کو مستقل خطرہ نہیں رہتا دیگر مسائل کو بھی عدالتی احکامات کے ذریعے حل کیا گیا تو وطن عزیز پا کستان امن، خو شحا لی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا ایسے مسائل میں پہلا مسئلہ خسارے میں چلنے والے سرکاری تجارتی اداروں کی نجکاری ہے یہ نجکا ری کئی بار عدالتی مداخلت اور حکم امتنا عی کی وجہ سے روک دی گئی اور قوم کو سال بہ سال اربوں روپے کا نقصان ہوتا رہا اس وقت ملک میں منتخب حکومت نہیں ہے سیا سی مجبوریاں اور مصلحتیں بھی نہیں ہیں، سپریم کورٹ نے بعض بڑے فیصلے بھی دیے ہیں جو دور رس نتا ئج کے حا مل ہیں ملک کے اندر مفاد عامہ کے لئے رضا کارانہ مقدمہ لڑ نے والے تجربہ کاروکلا ء کا گروپ (Pro bono lawyers) بھی بہت فعال ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وکلا برادری کو سول سوسائٹی میں ریڑ ھ کی ہڈی جیسی اہمیت حا صل ہے اس تنا ظر میں عوامی مفاد کا مقدمہ کے لئے خو د کو رضا کارانہ طور پر پیش کرنے والے تجربہ کا ر وکلاء کا فرض ہے کہ عدالت میں بنیا دی نو عیت کے تین مقدمات لا کر ان کی اچھی پیروی کریں پہلا مقدمہ نجکاری کا عدالتی حکم حاصل کرنے کے لئے لائیں پا کستان انٹر نیشنل ائیر لائنز (PIA) پا کستان سٹیل ملز (Pak steel) اور 18دیگر سرکاری اداروں کی فوری نجکاری ملک اور قوم کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ادارے تجارتی بنیاد پر کام کرنے کے لئے بنائے گئے تھے مگر تجارت میں فائدہ دینے کے بجائے ہر سال 800ارب روپے کا خسارہ دکھا رہے ہیں حکومت اپنے خزانے سے ہر سال اربوں روپے کا خصوصی فنڈ جا ری کر کے ان کے ملا زمین کی تنخوا ئیں ادا ر کر واتی ہے، عدالت ان اداروں کی فوری نجکاری کا حکم جا ری کرے تا کہ ملک اور قوم کو مزید خسارے سے بچا یا جا سکے اس طرح ایک اور مقدمہ ہے جو پہلے مقدمے سے بھی اہم ہے حکومت مقروض ہے قوم کا بچہ بچہ مقروض ہے اس کے باو جو د حکومت نے سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبروں کے لئے سالانہ 8کروڑ روپے سے لیکر 20کروڑ تک فی ممبر ادا کر تی ہے اس کا نا م ترقیا تی فنڈ ہے کا غذات میں ترقیا تی فنڈ ہی لکھا جا تا ہے مگر اس کی پائی پا ئی ضا ئع ہو جا تی ہے کیونکہ پا رلیمنٹ کا ممبراس کو 5لا کھ، 10لا کھ اور 12لا کھ کی چھوٹی چھوٹی سکیموں کے بہا نے پارٹی کا رکنوں میں تقسیم کرتا ہے، انگریز ی میں اس کو ”ڈاون دی ڈرین“ کہا جا تا ہے سا لا نہ ڈھا ئی ارب روپے اس مد میں ضا ئع جا تے ہیں، عدالت میں اگر مقدمہ لایا جا ئے اور مقدمے کی درست پیروی کی جا ئے تو یہ رقم پبلک سیکٹر ڈیو لپمنٹ پرو گرام میں شامل ہو جائیگی اور میگا پراجیکٹس پر خرچ ہو جائیگی جس کا ملک اور قوم کو بڑا فائدہ ہو گا، ایسا ہی ایک مقدمہ اراکین اسمبلی کی گاڑیوں کا ہے جس گاڑی پر پا رلیمنٹ کے ممبر کی تختی لگی ہو اس کی چیکنگ ہو جائے تو استحقاق مجروح ہو نے کا شور مچا یا جا تا ہے جبکہ تختی لگی گاڑیوں میں بڑے پیما نے پر سمگلنگ ہو تی ہے اسی طرح اراکین پا رلیمنٹ کو در جہ چہارم ملا زمین کی بھر تی کا کوٹہ دیا گیا ہے یہ کو ٹہ ٹاوٹوں کے ذریعے فروخت کیا جا تا ہے، عدالت اگر قوم اور ملک کے مفاد میں مقدمے کونمٹا تے ہوئے حکم صادر کر ے تو اراکین پا رلیمنٹ کا کردار صرف قانون سازی رہ جا ئے گا غیر متعلقہ کا موں میں ان کی مداخلت ختم ہو جائیگی اراکین پا رلیمنٹ کو وہی مرا عات ملینگی جو 1985ء سے پہلے ملتی تھیں اُس وقت اراکین اسمبلی کی اتنی عزت اور قدر تھی کہ سرکاری حکام ان کے گھر آکر ملتے تھے اراکین اسمبلی دفتروں کے چکر نہیں لگا تے تھے جب اراکین اسمبلی قانون سازی تک محدود ہو نگے تو ان کی وہی عزت لوٹ آئیگی کیونکہ وہ سرکاری حکام کے محتاج نہیں ہو نگے حکام ان کے محتاج ہونگے یہ کا م پا کستان کی عدلیہ کر سکتی ہے بشر طیکہ عوامی مفاد کا مقدمہ رضا کار وکلا کی طرف سے عدالت میں آجا ئے جس طرح عدلیہ نے طلبہ یونین کی ہلڑ بازی سے ملک کو بچا یا اس طرح اراکین پا رلیمنٹ کی من ما نی سے بھی قوم کو بچائیگی۔