دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔بیس فی صد سے کم نتیجہ۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

نتیجہ نتیجہ ہی ہوتا ہیخواہ صفر ہی کیوں نہ ہو۔۔نتیجہ کسی مخصوص کام کے احتتام کا مرحلہ ہے۔بحیثیت قوم، بحیثیت ملک اور بحیثیت فرد ہر ایک کو اس مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔کام معمولی سے معمولی ہو یا بڑے سیبڑا اس کا نتیجہ ضرور ہوتا ہے البتہ بڑے کام کا نتیجہ بڑا اہم اورمعمولی کام کا نتیجہ معمولی ہوتا ہے۔۔۔آج کل نویں اور دسویں کے سالانہ نتاٸج کے اعلان کے بعد یہ ہنگامہ برپا ہے کہ بیس فی صد سے کم نتاٸج والے سکولوں بمعہ سٹاف سزا دی جاۓ میں ذاتی طور اس پہ فخر کرتا ہوں اپنے سیکریٹری اور ڈایریکٹر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ ان کو اپنیمحکمے اور محکمے کی کارکردگی کی فکر ہے کہ وہ اپنے اداروں اور اساتذہ کو سزا کا مستحق کہتے ہیں ورنہ ملک خداداد میں کونسا محکمہ ہے کہ اس کی کارکردگی اور نتیجے پر سوچا جاتا ہے۔ملک میں ہزاروں کلو واٹ بجلی کی چوری ہوتی ہے واپڈے کا کونسا ڈایریکٹر ہے جو اپنیکارندوں کی سرزنش کرتا ہے۔سی اینڈ ڈبلیو میں کونسا کام معیاری ہوتا ہے ان سے کون پوچھتا ہے محکمہ خوراک میں کتنی بے قاعدگیاں ہوتی ہیں کبھی کسی نے پوچھا ہے۔ان کے علاوہ کرپشن اور سمگلنگ کے نتاٸج کیا کسی سے ڈھکی چھپی ہیں۔ٹیکس چوری کیاسرعام نہیں ہوتی پھر اسٹبلشمنٹ کونسا دودھ کا دھلا ہے۔لے دے کے محکمہ تعلیم جو تنقید کے تیروں کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔۔البتہ یہ ایسا محکمہ ہے کہ یہاں پہ قوم کی نرسری پنپتی ہے یہاں سے قوم کی جڑیں پھوٹتی ہیں مضبوط ہوتی ہیں۔ اس لییسب کی نظریں اس پہ لگی ہیں۔۔لیکن اس محکمے کی حیثیت قوم کے سامنے ہے۔۔یہاں کیگریٹ بیس کیآفیسر کو سواری کے لیے ساٸکل نہیں ملتی گھر بنگلے دور کی بات۔۔۔اور تحقیر ایسی کہ پولیس کا معمولی آفیسر، کلرک وکیل اس سے اٹھلا اٹھلا کے بات کرے۔۔اس محکمے کے اداروں کے اندر کی پالیسی ایک سوالیہ نشان ہے۔استاد کام کرے تو کام کرنے نہیں دیا جاۓ گا نہ کرے تو پوچھا نہیں جاۓ گا۔اس کے اندر معیار اور سہولیات کا کوٸی نہیں پوچھے گا کارکردگی کا پوچھے گا۔پیسے والے میرٹ پہ نجی اداروں میں جاٸیں گے جس کا کہیں ٹھکانہ نہ ہوگا وہ یہاں پہ جمع ہوں گے۔یہاں کی پراٸمیری میں تعلیمی سرگرمیوں کا جاٸزہ اس طریقے سے نہیں ہوگا جس طریقے سے ہونا چاہیے۔اساتذہ کو اس بات کا پابند نہیں کیا جاۓ گا کہ بچوں کی بنیادی مہارتوں (لکھاٸی اور پڑھاٸی) پر توجہ دی جاۓ پراٸمیری سکولوں کے اندر ایک ہجوم ہوگا اگر ایک استاد درد والا، مخلص اور محنتی بھی ہوگا تو اس کے پاس بچے کو دینے کے لیے مناسب وقت نہ ہوگا۔سزا اور فیل کرنے پر پابندی ہوگی۔داخلے کا کوٸی معیار نہ ہوگا۔۔یہ بچے آگے بڑھتے جاٸیں گے نویں تک آٸینگے بورڈ کہیگا کہ نویں والے فیل تصور نہیں ہوں گے اگزیم ٹو آۓ گا۔۔۔امتحان دے کے سب پاس ہو جاٸینگے لیکن بیس فیصد نتیجہ پھر ہدف بنے گا۔۔۔یہ عجیب مخمصہ ہے اگر فیل ہونا ہے تو سکولوں کو اداریکے اندر خود کچھ کرنے کی کھلی اجازت دیجاۓ اس میں میرٹ پہ داخلہ، سزا اور فیل پاس کا تصور ہو۔اگر نہیں ہے تو بورڈ کیوں فیل کرتا ہے۔اساتذہ قوم کی خدمت میں لگے ہوتے ہیں البتہ سسٹم کی کمزوریاں ایسی ہیں کہ وہ مجبور ہوجاتے ہیں۔۔ہمارے سکولوں میں تعلیمی سال ختم ہوتا ہے بچوں کے پاس نصاب کی کتابیں نہیں ہوتی ہیں ابھی تک کتابیں شارٹ ہیں۔ایک متحرک اور درد والا ڈایریکٹر ساٸنس لیپ کے لییدھاٸیاں دیتے رہتے ہیں مگر ایسے سکول بھی ہیں جہان ساٸنس لیپ نہیں ہیں۔اساتذہ سب خدا ترس بھی تو نہیں ہیں بہانے پہ بہانے بنتے ہیں۔ابھی ماہ اکتوبر کے آخر میں کھیلوں کے مقابلے بھی تھے سکولوں کے اندر داخلی ٹسٹ بھی تھے اور بورڈ کے امتحانات بھی تھے سب اپنی جگہ اہم تھے۔اب استاذ کو سالانہ امتحان میں بیس فی صد سے اوپرنتیجہ بھی دیکھانا ہے۔امتحانات کا جو معیار ہے ان پہ شرم آتی ہے سنٹروں میں کھلے عام نقل ہوتی ہے۔جو سکول بیس فی صد سے کم نتیجہ دیکھاتے ہیں ان سنٹروں میں بدقسمتی سے امتحان شاید سخت ہوچکا ہوتا ہے بچے نقل کے عادی ہیں انہوں نے مناسب تیاری کب کی ہوتی ہے امتحان کا معیار ایک جیسا نہیں ہوتا۔اب اس تناظر میں سکولوں اور اساتذہ کو ہدف تنقید بنانا ان کو شکستہ کرنے کے مترادف ہے اساتذہ اپنے محکمے اپنے ڈایریکٹر اور اپنے سیکریٹری کو جوابدہ ہیں۔اپنے رب کو جواب دہ ہیں۔ان مجبوریوں کے پیش نظر پوری قوم والدین اور ہر ایرے غیرے کو جواب دہ نہیں ہیں اگر خوہ مخواہ ذمہ دار ہیں تو آو ہاتھ بٹاٸیں۔۔۔ اپنے بچوں کے تعلیمی عمل میں اساتذہ کا ساتھ دیں۔۔۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ بچے اگزیم ٹو میں سو فی صد نتیجہ دکھاٸیں تو اس بیس فی صد کا کیا بنے گا۔۔۔۔