خودکشی کی چار اصل وجوہات۔۔۔ تحریر (ارشاد اللہ شاد)
بریکنگ نیوز؛ چترال میں خود کشی کا ایک اور واقعہ پیش آیا۔ چترال کی ایک اور بیٹا/بیٹی نے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ یہ روز اخباروں کی زینت بنتی ہیں۔ امسال ضلع چترال میں خودکشی کی شرح میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیاہے جس میں خاص طور پر نوجوان بچوں اور بچیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ ان کی روک تھام کیلئے مختلف پلیٹ فارم سے آگاہی، تجویزی پروگرامات بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں۔جس میں معززین مختلف وجوہات پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں اور نوجوانوں میں خودکشی کے روک تھام کیلئے ممکنہ حل بھی تلاش کئے جاتے ہیں۔ لیکن باوجود اس کے خودکشی کا یہ ناسور بدستور جاری ہے۔ اکثر ماہرین اس خیال سے بھی متفق نہیں ہے کہ خودکشی کرنے والے لوگوں کی اکثریت نے غربت کی وجہ سے اپنی جان لی۔ ان کا خیال اور ممکنہ تجاویز میں ان نکات پر زور دیا گیا کہ خودکشی کی بڑی وجہ ڈپریشن، گھریلو ناچاقی، معاشی مسائل، ماں باپ سے ناراضگی، امتحانات میں مسلسل ناکامی جیسے عوامل خودکشی کی بڑی وجوہات ہیں۔ لیکن یہاں میں ایک سوال کرنے لگا ہوں کہ کیا یہ ساری باتیں ہمارے سماج میں نئی تو نہیں ہے نا!۔۔۔ ایسی پریشانیاں پہلے بھی لوگوں کو لاحق ہوتی تھی۔ لیکن اب ایسا کیا نیا ہے، خواتین و حضرات کو اندر سے کمزور بنا رہا ہے۔ ایساکیوں ہوجاتاہے کہ ان کے اندر جینے کی چاہت ختم ہوجاتی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والے مردوزن کو آخر ایسی کون سی حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو انہیں اس بات پر مجبور کررہی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے دیا کو ہی ہمیشہ کیلئے گل کردیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ نئی نسل کو ایسا قدم اٹھانا پڑرہا ہے جو موت کے راستے کو جاتا ہے۔ آخر زندگی کو خوبصورت بنانے کی جدوجہد لگے یہ حضرات زندگی سے ہی نقل مکانی کا راستہ کیوں منتخب کررہے ہیں؟
میرے معززین اس حوالے سے مختلف پلیٹ فارم میں سیر حاصل گفتگو کرچکے ہیں اہل قلم حضرا ت نے اپنا آراء پیش کئے ہیں جو کہ قابل دید اور لائق تحسین ہے۔ یہاں میں چند اہم وجوہات کی طرف آپکی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو کہ ہمارے معاشرے میں ایک تنا آور درخت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
وجہ نمبر ۱۔۔ خواتین میں خودکشی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ شادی کا فیصلہ کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کی ذہنی اور تعلیمی مطابقت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔والدین اندھا دھند رشتے طے کردیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اچھا رشتہ ہاتھ سے نکلنے کا خوف ہوتا ہے۔ لیکن بعد کے حالات میں جب لڑکی اور لڑکے کو پتہ چلتا ہے کہ ان کی اپنی ساتھی کے ساتھ ذہنی مطابقت نہیں ہے تو وہ مایوس ہوکر انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔ میاں بیوی کے سماجی پس منظر، تعلیم، عمر اور سوچ میں فرق نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی خودکشی پر مائل کردینے والے عوامل ہیں۔
نمبر۔۔۲۔۔ دوسری وجہ میرے خیال سے مقابلہ آرائی کا رجحان۔۔۔۔ فی زمانہ چونکہ تمام جانب مقابل آرائی کا رجحان عام ہوچکا ہے اور تعلیم سے روزگار تک کے حصول کے سفر میں انہیں آزمائش سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ دراصل ناکامیوں کو برداشت نہ کرنے والوں کیلئے خودکشی پر مجبور ہوجانا واحد متبادل بن جاتاہے۔ سنہرے خوابوں اور قیمتی زندگی کا خاتمہ گو کہ کوئی بھی خوشی سے نہیں کرے گا مگر یہ رجحان کیوں پنپ رہا ہے۔
نمبر۔۔۳۔۔ تیسری وجہ کو میری ذاتی رائے ہی سمجھے۔۔ دیکھئے سماجی استحصال، انٹرنیٹ، موبائل فون کا زیادہ استعمال بھی ان واقعات کی اہم وجہ ہے۔اس میں سب سے بڑا عمل دخل سوشل میڈیا کا بھی ہوتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کئی طرح سے نئی نسل پر اثر انداز ہورہا ہے کیونکہ یہ تنقید، احساس کمتری اور دیگر نفسیاتی عارضوں کی وجہ بن رہا ہے۔ جس کی نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ بندہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
نمبر۔۔۔۴۔۔ چوتھی وجہ میرے خیال میں سماجی مدد کی عدم موجودگی۔۔ کس طرح۔۔دیکھئے۔۔۔مثلاََ ایک شخص انتہائی مایوس، بچپن کے حالات، اور مسلسل ناکامی جیسے عوامل نے ان کی زیست کو گھیرا ہوا ہیں۔وہ اس دلدل سے باہر نکلنے کی حتی الوسع کوشش کرتا ہے لیکن حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ باہر نکل نہیں سکتا اور مجبوراََ یہ راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ پرانے زمانے میں خانقاہوں میں پریشان حال لوگوں کو سہارا و مدد مل جاتی تھی۔ وہاں لوگ ان کے دکھ درد اور پریشانی سنتے تھے جس سے انھیں حوصلہ ملتا تھا لیکن آج کے دورمیں کسی سماجی مدد کے نظام کی غیر موجودگی لوگوں میں مایوسی پیدا کررہی ہے۔
آجکل یہ ایک قابل غور سوال ہے۔ اگر کوئی خودکشی جیسا بڑا قدم اٹھاتا ہے یا اس کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس کے پیچھے اس کی کوئی بڑی مجبوری یا وجہ ضرور رہتی ہے۔ یہ ایک ایسا ایشو بن گیا ہے جو ہر سنجیدہ طبقے کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ قیاس آرائیاں تو آجکل سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں لیکن اس کی اصل چھپے محرکات کا سراغ لگانا ناممکن نہیں مشکل ضرور ہوگیا ہے۔
میں تو کہتا ہوں کی یار آخر ہمارے سماج کے تانے بانے میں کیا کمی ہے جو لوگ زندگی کو جینے کے بجائے زندگی کا دیا گل کر رہے ہیں۔ اللہ ہی بچائیں۔۔
اس مذموم فعل کی روک تھام کیلئے اہل قلم حضرات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اور ہم سب کو مل کر اپنی اپنی سطح پر اس انسانی المئیے کو روکنے اور اس کا سد باب کرنے کی کوشش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ آپ بھی اپنی قیمتی آراء سے نوازیں۔شکریہ