داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔وفاقی محتسب کا ادارہ
تازہ خبر یہ ہے کہ وفاقی محتسب کے ریجنل دفتر نے کرم اور جنو بی وزیر ستان میں دو ضلعی دفاتر قائم کر کے سابقہ فاٹا کے ضم اضلا ع تک اپنا دائرہ وسیع کر دیا ہے اگر چہ وفاقی محتسب سے رجوع کرنے والے شہریوں کو کمپیو ٹر کی مدد سے آن لا ئن شکا یا ت درج کرنے کی سہو لت بھی دی گئی ہے تا ہم ملک کے پہا ڑی علا قوں میں کمپیو ٹر، ڈی ایس ایل، وائی فائی، فور جی اور فا ئیوجی کی سہو لیات نہ ہونے کی وجہ سے آبادی کا بڑا حصہ آن لائن شکا یات درج کرنے سے محروم ہے اس لئے ضروری سمجھا گیا کہ ضم اضلا ع تک وفاقی محتسب کا دائرہ بڑھا نے کے لئے دفاتر قائم کئے جا ئیں تا کہ لو گ سادہ درخواست لیکر دفتر جائیں اور اپنی شکا یت درج کریں گذشتہ 40سالوں کے اندر عدالتی کاروائی کی طوالت اور اس میں بے تحا شا اخرا جا ت سے عام لو گوں کی جا ن چھڑا نے کے لئے تین ادارے قائم کئے گئے ہیں 1980کے عشرے میں وفاقی محتسب کا ادارہ قائم ہوا اس کے 15سال بعد صارفین کی عدالتیں قائم کی گئیں، صارفین کی عدالتوں کے ساتھ ہی تنا زعات کے حل کی کمیٹیوں کا نظام متعارف کرا یا گیا تینوں کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو درپیش مسائل کا بڑا حصہ عدالتوں میں نہ آئے اور عدالتوں سے با ہر ان کو حل کیا جا ئے عوام کو سستا انصاف ملے گا اور عدالتوں پر مقدمات کے دباؤ میں کمی آئیگی تینوں میں ایک بات مشترک ہے یعنی عام آدمی سادہ کا غذ پر عرضی لکھوا کر اپنی شکا یت در ج کر کے انصاف حا صل کر سکتا ہے اگر چہ تینوں ادارے اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں تا ہم وفاقی محتسب کا ادارہ ان میں نما یا ں خصو صیا ت کا حا مل ہے ڈیرہ اسما عیل خان ریجنل آفس کے دورے کے مو قع پر اخبا ری نما ئیندوں سے گفتگو کر تے ہوئے وفاقی محتسب اعجا ز احمد قریشی نے سال 2022کے حوالے سے کہا کہ اس سال پہلے کے مقا بلے میں 49فیصد زیا دہ شکا یتیں مو صول ہوئیں لو گوں نے 3ارب روپے سے زائد ما لیت کے ما لی معا ملا ت کے لئے وفاقی محتسب سے رجوع کیا مجمو عی طور پر ایک لا کھ چونسٹھ ہزار شکا یتیں مو صول ہوئیں ان میں سے اکیا نوے ہزار درخواستیں آن لائن بھیجی گئی تھیں وفاقی محتسب کا کہنا تھا کہ لو گوں کو محتسب کے ادارے کے بارے میں زیا دہ آگا ہی حا صل نہیں اگر آگا ہی حا صل ہوئی تو شکا یا ت کی تعداد میں دس گنا اضا فہ ہو سکتا ہے ڈیڑھ سال پہلے اسلا م اباد میں وفاقی محتسب کے دفتر آنے والے چند عرض گذاروں سے بات چیت کا مو قع ملا تھا ایک بیوہ خا تون تھیں جن کے 3کمروں کی 6بتیوں کا بل ایک لا کھ بیس ہزار روپے آیا تھا واپڈا کی مقا می کمپنی نے میٹر چیک کر کے بل درست کر نے سے انکا ر کیا بل جمع نہ کرنے پر بیوہ کے گھر کی بجلی کا ٹ دی بیوہ نے وفاقی محتسب کے دفتر میں در خواست دیدی واپڈا کے ذمہ دار افیسر نے دومہینوں کے اندر تین بار پیشی پر حا ضری دی اور تیسری پیشی پر بیوہ کے میٹر کا ریکارڈ درست کر کے 300روپے کا بل دینے اور بجلی دوبارہ بحال کر نے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی تین پیشیوں پر بیوہ کے صرف 400روپے کرایے کی مد میں خرچ ہوئے، یہ فوری انصاف بھی تھا اور سستا انصاف بھی تھا ایک اور سائل نے اپنی رو داد سنا تے ہوئے کہا کہ مجھے ہاوس بلڈنگ فنا نس کا رپوریشن نے 10لا کھ قرضہ دیا 10سالوں میں 26لا کھ روپیہ وصول کیا اصل رقم میں سے 7لا کھ روپے اور سود کی مد د میں 22لا کھ مزید ادا کرنا باقی ہے گویا 45لا کھ سود کی مد میں جمع کروں گا اور اصل رقم کو ملا کر 55لا کھ روپے جمع کرنا ہو گا ان کی درخواست پر وفاقی محتسب نے کاروائی کی تو پتہ لگا کہ کارپوریشن نے پہلے دن اصل زر کے ساتھ سود کو ملا کر 55لاکھ کا حساب لگا یا تھا اور صارف سے 55لا کھ پر 26فیصد کے حساب سے سود لے رہا تھا چنا نچہ قرض کی اصل دستاویز کو سامنے رکھ کر حساب لگا یا گیا اور کارپوریشن سے 6لا کھ روپے واپس لیکر صارف کو دیدیے گئے یوں اُس نے 10لا کھ روپے پر 10لا کھ کا سود ادا کر کے حساب بے باق کر دیا کتنے صارفین ایسے ہونگے جو آگا ہی نہ ہونے کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہیں گیس اور ٹیلیفون کے محکموں سے کتنے لو گ نا لاں ہیں وفاقی محتسب کا ادارہ سب کے لئے سستے اور فوری انصاف کا دروازہ فراہم کر تا ہے اس ادارے کے دفاتر اگر تما م اضلا ع میں کھو لئے گئے تو مظلوم عوام کو بڑا ریلیف ملے گا۔