داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔کھچڑی کیسے پکتی ہے؟
وطن عزیز پا کستان میں جمہوریت ونیٹی لیٹر پر ہے سندھ اور بلو چستان میں اسمبلیاں کا م کر رہی ہیں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں قومی اسمبلی اپنی جگہ قائم ہے سینیٹ مو جو د ہے آئینی طور پر 2023کو انتخا بات کا سال قرار دیا گیا ہے مگر سال کا کونسا مہینہ انتخا بات کا مہینہ ہو گا یہ بات صیغۂ راز میں ہے جمہوری ملکوں میں صو بائی انتخابات الگ وقت پر ہو تے ہیں ان کا الگ سال ہو تا ہے قومی انتخا بات کا الگ سال ہو تا ہے اس میں تاخیر نہیں ہوتی لیکن ہمارے ہاں اس کا تصور نہیں ہے یہاں اول روز سے اعتما د کا فقدان چلا آرہا ہے کسی کو بھی دوسرے پر اعتما د نہیں نفسیات کی رو سے اعتما د کا فقدان احساس کمتری سے پیدا ہو تا ہے جب سیا سی جما عتیں اس بیماری میں مبتلا ہو تی ہیں تو ہر ایک کو شک کی نظر سے دیکھتی ہیں اور شک ایسی بیماری ہے جس کا علا ج حکیم لقمان کی کتاب میں بھی نہیں ملتا اس شک کی بنا ء پر ہمارا دستور پوری دنیا سے الگ ہے دوسرے مما لک میں منتخب حکومت اپنی مدت پوری کر کے انتخا بات کر اتی ہے کیونکہ سیا سی بلو غت کی وجہ سے سب اُس پر اعتما د کر تے ہیں ہمارے ہاں انتخا بات کے لئے غیر منتخب نگران حکومت کا مطا لبہ کیا جا تا ہے آئین میں اس کی گنجا ئش رکھی گئی ہے اور جمہور ی دنیا میں اس کو عجو بہ خیال کیا جا تا ہے بسا اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ نگران حکومت پر بھی اعتماد نہیں کیا جا تا اس کو ڈبل عجو بہ کہا جا سکتا ہے مجھے ایک نا مور مصنف کا لکھا ہوا واقعہ یا د آتا ہے مصنف عکسی مفتی لکھتا ہے کہ پیر علی محمد راشدی نے اپنے بڑے بھا ئی پیر حسام الدین راشدی کے ہمراہ مجھے کھا نے پر بلا یا وقت مقررہ پر ہم حا ضر ہوئے تو بولا آج کوئی بڑی دعوت نہیں ہے صرف آپ کے سامنے کھچڑی رکھنا ہے اور گپ شپ لگا نی ہے یہ بھی بتا نا ہے کہ کھچڑی کیسے پکتی ہے؟ اس کے بعد میز بان نے اپنے نو کر کو آواز دی اُس نے دور سے جواب دیا جی سائیں! میزبان نے کہا ہلکی آنچ والی آگ جلا ؤ، پھر نوکر نے کہا جی سائیں! میزبان بولا آگ پر دیگچی چڑھاؤ، پھر وقفے وقفے سے سائیں حکم دیتا رہا، تھوڑا ساتیل ڈالو، چھیلے ہوئے پیا ز، دھلے ہوئے ٹما ٹر، نمک، مر چ، مصا لحہ ڈال دو، کف گیر ہلا ؤ اور خوب پکاؤ، اس کے بعد پا نی ڈال دو، پھر اُبلے ہوئے مونگ، پھر دُھلے ہوئے چاول اس کے بعدمیز بان نے کہا اب کف گیر ہلا ؤ اور ہلا تے رہو، آنچ کو اور بھی دھیما کر و، اور بھی دھیما کرو، ذائقہ چکھ لو، اخیر میں کہا لو جی کھچڑی تیار ہو گئی ہم کم و بیش ایک گھنٹہ یہ کارو ائی دیکھتے اور سنتے رہے اس کے بعد مصنف نے کھچڑی کے ذائقے اور کھچڑی کھا نے کے لطف کا کوئی ذکر نہیں کیا مصنف نے جو کچھ لکھا وہ پا کستان کی سیا ست کا آئینہ ہے اُس نے لکھا ہمارا میز بان ہمیں کھچڑی کھلا نے سے زیا دہ پا کستانی سیا ست کے داؤ پیچ سمجھا نے میں دلچسپی رکھتا تھا وہ ہمیں سمجھا تاتھا کہ پا کستان میں جمہوریت کی کھچڑی اس طرح پکتی ہے اس کا فار مو لا جس کے پا س ہے و ہ صوفے پر بیٹھ کر حکم دیتا ہے پکا نے والے کھچڑی کو ہلکی آنچ پر رکھ کف گیر ہلا تے ہیں اور اُس وقت تک ہلا تے رہتے ہیں جب تک صو فے پر بیٹھا ہوا میز بان انگلی نہ اٹھا ئے قدیم یو نا ن میں فلسفے کے طا لب علم ایک بند کمر ے میں بیٹھ کر اس بات پر سالوں تک بحث کیا کر تے تھے کہ گھوڑے کے کتنے دانت ہو تے ہیں ان میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کر گھوڑے کے دانت دیکھنے نہیں جا تا تھا چنا نچہ بند کمرے میں آنکھیں بند کر کے جو مفروضے قائم کئے جا تے تھے ان مفروضوں کو فلسفہ کہا جا تا تھا یہ بھی گویا کھچڑی کا فار مو لا تھا، 2023کے انتخا بات سے پہلے وطن عزیز میں بند کمروں کے اندر گھوڑے کے دانتوں پر بحث جا ری ہے اور دور کسی کونے میں کچھڑی پک رہی ہے ؎
ہیں کو اکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھو کا یہ با زیگر کھلا