داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔نقالی کی وبا
سال 2022کے دوران ہو نے والے واقعات کی جو تفصیلات آرہی ہیں بعض باتیں پہلے ہی خبروں میں آچکی ہو تی ہیں مگر ہم بھول چکے ہوتے ہیں مثلا ً دہشت گردی کے کتنے واقعات ہوئے، کتنے سمگلر پکڑے گئے کتنے مجرموں کو سزا ئیں ہوئیں مگر ایک ایسی بات آگئی جس کا ہمیں قطعاً علم نہ تھا خبر یہ ہے کہ سال 2022کے دوران مو بائل فون کی کمپنیوں نے پا کستان میں 5کھرب روپے کا زبردست کاروبار کیا، ظاہر ہے 5کھر ب روپے کے کاروبارکا مطلب یہ ہوا کہ ملک سے اوسط حساب سے سوا رب ڈالر با ہر لے گئے کیونکہ مو بائیل کمپنیوں کے کاروبار میں بیرونی سر ما یہ کاری ہوئی ہے اور اس کا رو بار کا بڑا حصہ ملک سے باہر جا رہا ہے مو بائل کمپنیوں کے کاروبار میں مدد دینے والے سارے امیر، دولت مند، سرما یہ دار اور جا گیر دار نہیں ہیں بلکہ ان میں غالب اکثریت ملک کے متوسط اور غریب طبقے کی ہے یہاں تک کہ جن کے ماں باپ آٹا، دال اور گھی جیسی بنیا دی ضروریا ت کے لئے در در کی ٹھو کریں کھا رہے ہیں وہ بچے آٹے دال کا خر چہ مو بائل کمپنیوں کی جھولی میں ڈال رہے ہیں یہ ہماری اجتما عی نفسیات سما جی شعور اور انفرادی تعلیم و تر بیت کا نتیجہ ہے جو نقا لی کی وبا بن چکی ہے دنیا کے دیگر اقوام کا یہ وطیرہ نہیں وہ لو گ انفرادی سطح پر بھی ٹھیک، درست اور منا سب تر جیحات اپنے سامنے رکھتے ہیں قومی سطح پر بھی ان کی تر جیحات ٹھیک، درست اور منا سب ہوتی ہیں اب مو ضوع بحث یہ ہے کہ تر جیحات متعین کرنے کا کام خاندان اور فرد سے شروع ہوتا ہے یا پارلیمنٹ اور حکمران کے گھر سے شروع ہوتا ہے دونوں کے حق میں بھی دلا ئل مو جود ہیں اور دونوں کے خلاف بھی ثبوتوں اور شہا دتوں کی کمی نہیں زیا دہ دور جا نے کی ضرورت نہیں، اگر ہم ایک معروضی مطا لعے کے لئے چین، سنگا پور اور پاکستان کا موازنہ کریں تو آسانی رہے گی، چین اور سنگا پور میں تر جیحات درست کرنے کا کام اوپر سے شروع ہوا چیر مین ماؤ اور لی کوان یو نے اپنے دفتر سے درست ترجیحات کا آغاز کر کے مثال قائم کی اور یہ مثال آہستہ آہستہ معا شرے کے لوگوں میں سرایت کر تی ہوئی خاندان اور فرد تک آگئی علا مہ اقبال نے بھی جمہور کی اصلا ح اور نقش کہن کو مٹا نے کے بعد یہ نوید سنا ئی تھی ”افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ“ درخت کو جب مرض لگتا ہے تو پہلے شاخوں اور پتوں کو لگ جا تا ہے پھر بتدریج نیچے آکر تنے کو لپیٹ میں لے لیتا ہے اور جڑوں تک پہنچ جاتا ہے اگر باد شاہ 10کھرب ما لیت کے محل میں رہتا ہو، 30،30کروڑ روپے والی 20گاڑیوں کا جلوس لیکر سفر کر تاہو وہ رعایا سے ساد گی اپنانے کی اپیل کر ے تو اس کی اپیل کا کوئی اثر نہیں ہوگا اپنی اپیل میں اثر پیدا کرنے کے لئے باد شاہ کو رعا یا کی سطح پر آنا پڑے گا کیونکہ ذرائع ابلا غ کے ہجوم میں باد شاہ سلا مت کی تما حر کات و سکنات ہر صبح و شام ٹی وی اور سوشل میڈیا پر آجا تی ہیں اوپر سے سادگی کا درس آئے گا تو خاندان اور فرد کی زند گی تک اس کا اثر ہو گا مثلا ً ملک میں توا نائی کا بحران ہے باد شاہ کے محلا ت میں 20ہزار بلب اور قمقمے رات دن روشنیاں بکھیر رہے ہیں تو رعا یا توانائی کی بچت کس طرح کریگی، مثلاً خبروں میں آتا ہے کہ ملک مقروض ہے آئی ایم ایف مزید قرض دینے سے انکا ری ہے دوست مما لک بھی مزید قرض نہیں دے رہے اس خبر کے ساتھ ہی دوسری خبر آتی ہے کہ باد شاہ نے 50قیمتی گاڑیاں بیرون ملک سے خرید نے کی منظوری دیدی تو رعا یا پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے اوپر کی غلط تر جیحات کا یہ اثر ہو تا ہے کہ خاندان اور فرد کی سطح پر غلط تر جیحات کو جگہ ملتی ہے گھر میں آٹا نہیں چار بچے مو با ئل نیٹ ور ک سے پیکیج لینے کی تیاری کر رہے ہیں ماں کے سر پر چادر نہیں بیٹا سمارٹ مو بائل پر ہر روز 200روپے کا ایزی لوڈ پھو نک دیتا ہے مو بائل فون کمپنیوں کا زبردست کا میاب بزنس دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان،چین اور سنگا پور سے بھی زیا دہ خوشحال ملک ہے مگر ملک کے اندر 62فیصد آبادی غر بت کی لکیر سے نیچے جا چکی ہے۔