داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔ٹیلی وژن اور ریڈیو
پا کستان ٹیلی وژن نے ملک کی تاریخ میں پہلے ور چو ئیل سٹو ڈیو کا افتتاح کیا ہے اور اس کو خبروں کی دنیا میں وطن عزیز کے سفر کا تاریخی سنگ میل قرار دیا ہے، انگریزی اور جدید ٹیکنا لو جی سے جو لوگ واقفیت نہیں رکھتے ان کے لئے دونوں الفاظ نا ما نو س ہونگے اخباری زبان میں ور چوئیل کا مطلب تمثیل اور قیا س یا مجاز ہے لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کا دوست 10ہزار کلو میٹر دور رہتے ہوئے تصویر کے ذریعے کمپیو ٹر پر آپ کے ساتھ گفتگو کر ے دیکھنے والوں کو ایسا لگے کہ وہ آپ کے پا س بیٹھا ہے مگر وہ اصل میں آپ کے پا س نہیں ہے انگریزی میں ویڈیو کال، ویڈیو چیٹ، آن لا ئن یا سکائیب پر گفتگو اس کی ابتدائی صورت تھی اور محدود تھی، ور چوئیل کا نا م اس کی ترقی یا فتہ یعنی لا محدود، بے حد وسیع شکل کو ظا ہر کرتا ہے دنیا کے بڑے نیو زچینلوں کے پا س ورچو ئیل سٹو ڈیو کی سہو لتیں دستیاب ہیں اس طرح سٹو ڈیو کا انگریزی لفظ بولنے اور سننے کے کمرے کے لئے استعمال ہو تا ہے اس کی چھت، دیواریں اور دروازے ایسے ہو تے ہیں جن میں تصویر اور آواز کو صاف رکھنے کی صلا حیت ہو تی ہے، با ہر کی اواز اندر نہیں آسکتی، با ہر سے غیر ضروری ہوا، روشنی بھی نہیں آسکتی، تصویر اور آواز اپنی اصل حالت میں محفوظ ہو کر سننے اور دیکھنے والوں تک پہنچتی ہے یوں ور چوئیل سٹو ڈیو تمثیل، عکس اور مجا ز کو اصل صورت میں سا معین اور نا ظرین تک پہنچا تا ہے یہ میلبورن یا کرائسٹ چرچ سے کر کٹ میچ براہ راست دکھا نے کا آسان ذریعہ ہے ور چو ئیل کے بغیر کسی واقعے کو براہ راست دکھا نے کے لئے سٹیلا ئیٹ چینل سے خرید کر لینا پڑ تا ہے جس کی بولی ہو تی ہے اور یہ بہت پیچیدہ عمل ہے مختصر تمنا کی اس طولا نی تمہید کا مقصد یہ بتا نا ہے کہ پا کستان ٹیلی وژن اب ایک نئے دور میں داخل ہوا چنا نچہ دیگر عالمی چینلوں میں اس کا شمار ہونے لگے گا اہم بین لاقوامی چینلوں کے ساتھ پرو گراموں کا تبا دلہ ہو سکے گا اور پا کستانی نا ظرین دوسرے چینلوں کے محتاج نہیں رہینگے ور چوئیل سٹو ڈیو کا افتتاح کر تے وقت وفاقی وزیر اطلا عات مریم اورنگزیب نے کہا کہ مشینری، آلات، اثا ثے اور وسائل پہلے سے مو جود تھے صرف نظم و نسق کی کمی تھی اس کمی کو پورہ کرنے کے بعد پا کستان ٹیلی وژن اب نشریات کے نئے دور میں داخل ہوا ہے اس کا کریڈٹ اس ادا رے کے قابل اور محنتی کا رکنوں کو جا تا ہے وزارت اطلاعات و نشریات کو اس کا میا بی پر مبارکباد دیتے ہوئے ہمارا خیال شعوری طور پر ریڈیو پا کستان کی طرف جا تا ہے یہ بھی اس وزارت کا نشر یاتی ادارہ ہے اس میں تصویر نہیں آتی، کہا نی آتی ہے اس لئے تصویر میں دلچسپی رکھنے والے حکام ریڈیو پا کستان کے ساتھ سو تیلی ماں کا رویہ روا رکھتے ہیں حالانکہ ریڈیو بہت موثر ذریعہ ابلا غ ہے جہاں بجلی نہیں، جہا ں بوسٹر نہیں، جہاں سگنل نہیں، جہاں تصویر کی رسائی نہیں وہاں لو گ اکیسویں صدی میں بھی ریڈیو ہی سنتے ہیں بازار میں سودا گر، کھیتوں میں کاشتکار اور پہا ڑوں میں چر واہا ریڈیو سنتا ہے مو ٹر وں میں محو سفر رہنے والے مصروف لو گ بھی ریڈیو سنتے ہیں جہاں ٹیلیفون نہیں، مو با ئیل فون کا نیٹ ورک نہیں وہاں خبروں کا واحد ذریعہ ریڈیو ہے اور وطن عزیز پا کستان میں 78فیصد دیہی علا قے ریڈیو کے ساتھ منسلک ہیں دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت نے ریڈیو پا کستان کو عاق کردیا ہے 98فیصد اے ایم ٹرانسمیٹر خا موش کر دیئے گئے ہیں نئے پر وگراموں کی تیا ری، ریکارڈنگ اور نشریات ختم کر دی گئی ہیں کر اچی سے چترال اور گوادر سے گلگت تک اداکاروں، گلو کاروں، ادیبوں، شاعروں اور صحا فیوں کو ریڈیو سے بے دخل کر دیا گیا ہے وجہ یہ ہے کہ ریڈیو میں تصویر نہیں آتی بہت اچھی بات ہے کہ وزارت اطلا عات و نشریات نے ٹیلی وژن کا ور چو ئیل سٹو ڈیو قائم کر کے نیا سنگ میل عبور کیا اب اگر ریڈیو پا کستان کا 1965والا دور واپس لا کر پاکستان کے اس طاقتور اور موثر میڈیا کو بھی ایک بار پھر زندہ کیا جا ئے تو پوری دنیا عش عش کر اُٹھیگی۔