دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”عافیت بڑی نعمت ہے“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”عافیت بڑی نعمت ہے“
ابھی گھر سے نکلا ہوں صبح کا ناشتہ ادھی روٹی اور چا? کا ساتھ تھا منو نے ہنسا کر دل خوش کردیا تھا توتلی زبان سے تیسرا کلمہ سنا?ی۔اس کی ماں نے تنبیہ کی وہ کلمہ سناتی ہے ارو تم ہنستے ہو اس نے ماں کو ڈانٹ پلا?ی کیا میں غلط سنا رہی ہوں۔۔۔نہیں نہیں تمہاری خوش الحان قرات پہ ہنسی آتی ہے آج گھر میں کو?ی خاص کام کرنے کو نہیں مجھے گا?ں میں ایک بیمار کی بیمار پرسی کرنی ہے۔بیوی نے کہا ہے واپسی پر یوٹیلیٹی سٹور سے چینی لانا پانچ سو روپے تھما دیا ہے۔۔پتہ نہیں میری قلیل تنخواہ میں اتنی برکت کہاں سے آتی ہے۔تین بچے اور ہم میان بیوی ہیں زندگی ایک ڈھنگ سے گزر رہی ہے کبھی کو? بیمار نہیں ہوا کبھی لڑا?ی جھگڑے نہیں ہو? کبھی بچوں کی شرارت کی شکایت نہیں آ?ی بچے اپنے سکول میں خوب پڑھتے ہیں۔معمولی سا گھر ہے کچی عمارت ہے۔بیٹی روز ان کمروں کی صفا?ی ستھرا?ی کرتی ہے کبھی شکایت نہیں کرتی۔سال میں ایک بار ن? جوڑے بنتے ہیں بیوی اس سے بھی کتراتی ہے کہ پیچھلے سال کے پڑے ہیں۔شام کے کھانے کے بعد بچوں کی پیاری باتیں ہوتی ہیں سکول میں مصروفیات۔۔گا?ں میں کھیل تماشے۔۔۔صبح اذان سے پہلے بیوی اٹھتی ہے اذان کے بعد بچے سب نماز پڑھتے ہیں میں مسجد سے واپس آتا ہوں تو ایک کپ چا? تیار ہوتی ہے پھر ناشتے کی باری آتی ہے۔میں گھر سے نکلا ہوں تھوڑا آگے گیا ہوں توگا?ں کے ایک معزز بھا?ی فا?ل بغل میں دبا? کھڑا ہے اس کا بیٹا گاڑی سٹارٹ کر رہا ہے۔پوچھنے پر کہتا ہے بھا?ی آج عدالت میں پیشی ہے چہرہ افسردہ ہے۔۔۔ بے چینی ہے۔۔۔ تھوڑا آگے جاتا ہوں تو دوسرا ادمی پریشان ملتا ہے پوچھنے پر کہتا ہے بیوی ہسپتال میں داخل ہے۔۔۔ دارو دوا کے پیسے نہیں۔۔۔ ہمسای? کے گھر جا رہا ہوں۔۔۔۔ پیسے مانگنے ہیں۔۔۔میں جھٹ سے جیب سے وہ پانچ سو روپے نکال کے دیتا ہوں اور تڑپ اٹھتا ہوں۔تھوڑا آگے جاتا ہوں۔۔۔ ایک بھلا ادمی ایک بچے کا کان پکڑا ہوا ہے۔۔۔گھسیٹ رہا ہے۔۔۔ بچہ رو رہا ہے۔۔ پوچھنے پر کہتا ہے۔۔۔کہ نابکار سکول نہیں جاتا استاد کی شکایت ہے کہ سکول سے بھاگتا ہے۔تھوڑا آگے جاتا ہوں تو ایک معمر شریف دیہاتی سیملاقات ہوتی ہے۔۔ افسردہ ہے۔۔۔چہرے سے درد عیان ہے۔۔۔ سلیک علیک کے بعد ہم اکھٹے آگے جاتے ہیں وہ اپنا درد سنانا شروع کرتا ہے۔۔بیٹی کا رشتہ شہر میں ہوا تھا وہ لوگ رشتے کے قابل نہیں تھے اب بیٹی گھر آ بیٹھی ہے۔آگے دو پولیس کانسٹیبل ملتے ہیں ایک ہمسای? کا گھر پوچھتے ہیں وہ بنک کا مقروض ہے۔۔ اس کی گرفتاری کی وارنٹ ہے۔میں متعلقہ گھر پہنچتا ہوں۔۔۔مریض کا معا?نہ ہوا ہے۔۔ ڈاکٹروں نے شہر کے ایک بڑے ڈاکٹر سے اپریشن کرنے کا کہا ہے۔میں جب واپس ہوتا ہوں تو مسلسل اللہ کا شکر ادا کرتا جاتا ہوں۔۔ میرے ہاتھ خالی ہیں۔۔۔ میں بغیر چینی خریدے جا رہا ہوں۔۔۔ میری یادوں میں فخر موجودات ص کی وہ حدیث آتی ہے۔۔”عا?شہ ض تمہیں شپ قدر ملے تو دنیا اور اخرت کی عافیت مانگ“
سکون زندگی میں سب سے بڑی دولت ہے۔۔۔ سب سے بڑی نعمت ہے۔ابو نے ایک دفعہ سوال کیا تھا ”کامیابی کسے کہتے ہیں؟“ میں نے دنیا کی کامیابیاں گنوا?ی تو وہ مسکرا کر نہیں نہیں کہتا رہا پھر کہا۔۔۔”بیٹا!کامیابی خوشی اور سکون کا نام ہے۔۔جھونپڑی میں اگر سکون تو کامیابی ہے محل میں اگر عافیت اور سکون نہیں تو ناکامی ہے“۔۔زندگی مختصر ہے اس کو بکھیڑوں میں گنوا?ی نہ جا?۔۔۔مرد قلندر نے شاید اس ل? کہا تھا۔
میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کے سلوں سے
میرے لی? مٹی کا حرم اور بنا دو۔
عافیت زندگی ہے صحت سکون زندگی ہے دولت ہے نعمت ہے۔۔میں اس شکر کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا ہوں بیوی کو کارگزاری کرتاہوں دونوں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔