داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔نجکا ری کی تردید
سر کا ری تر جما ن نے بعض ہو ائی اڈوں کو پبلک پرا ئیویٹ پا رٹنر شپ میں دینے سے متعلق خبر کی تر دید کی ہے تر جمان کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی تجویز حکومت کے زیر غور نہیں تردید آنے کے بعد ایک صاحب نے اس پر گرہ لگا ئی ہے جس خبر کی تردید آئے وہ خبر غلط نہیں ہوتی اس پر ایک دوسرے صاحب نے رائے دی کہ نجکا ری کوئی بری بات نہیں نجکا ری کے دو بڑے فائدے ہر خا ص و عام کو معلوم ہیں پہلا فائدہ یہ ہے کہ سر کار کے کندھوں پر سے بو جھ کا بڑا حصہ ہلکا ہو جا تا ہے دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جس چیز کو نجی ملکیت میں دی جا ئے یا نظم و نسق میں نجی شعبے کو شریک کار قرار دیا جا ئے اس میں سروس اور خد مات کا معیا ر بلند ہو تا ہے کیونکہ سیٹھ سر کار سے بہتر انتظا می صلا حیت کا ما لک ہو تا ہے ٹیلیفون جب سر کار کے پا س تھا تو نئی لا ئن حا صل کرنے میں دو سال لگ جا تے تھے نجکا ری کے بعد 24گھنٹوں میں کنکشن ملتا ہے آدھ گھنٹے کے اندر خر ابی کی شکا یت کا ازالہ ہو تا ہے جن ہسپتالوں کا نظم و نسق نجی شعبے کو دیا گیا تھا ان کا معیار بلند ہوا تا ہم نجکا ری کیوں کر ہو؟ کیسی ہوں؟ اور کب ہو؟ ان سوالات پر سنجیدگی سے غور کرنے اور عوامی سطح سے لیکر ما ہرین کی سطح تک بات کر کے قابل عمل حل تلا ش کرنے کی ضرورت ہے دنیا بھر میں تجا رتی ادارے، کار خانے، ہسپتال، ریل، بجلی، گیس وغیرہ قسم کی خد مات والے ادارے سب سیٹھوں، سا ہو کاروں اور کار وباری کمپنیوں کی ملکیت میں ہو تے ہیں اپنا کا روبار چلا تے ہیں عوام کو خد مات فراہم کر تے ہیں سرکار کو اپنی آمدنی پر ٹیکس دیتے ہیں، ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کسی ملک کی کا میا ب حکومت ہوائی جہا زوں کے لئے، سٹیل ملز کے لئے، بجلی کے لئے، گیس اور تیل کے لئے سالا نہ بجٹ سے 100ارب یا 200ارب کی امداد اور سبسڈی دیتی ہے اور اس کو بیل آوٹ پیکیج کے نا م سے یا د کر تی ہے، ایسا نہیں ہو تا، کار وبار ی ادارے حکومت سے بیل آوٹ پیکیج نہیں ما نگتے بلکہ ضرورت پڑنے پر حکومت کی مدد کر تے ہیں ہماری حکومت کاروباری اداروں میں اپنے افیسر وں کو بٹھا تی ہے چند سال پہلے واپڈا کے بڑھتے ہوئے خسارے کو کم کرنے کے لئے بجلی کی تقسیم کا کا م الگ کمپنیوں کو دیا گیا جیسے لیسکو، ٹیسکو، پیسکو وغیرہ لیکن ظلم یہ ہوا کہ ان کمپنیوں کا نظم و نسق نجی شعبے کوحوالہ کرنے کے بجا ئے سر کاری افیسروں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا اور خسارہ جوں کا توں رہا، خد مات کی فراہمی معطل ہی رہی اگر 2000صارفین کا ٹرانسفار مر خراب ہو جا ئے تو پیسکو حکام کہتے ہیں کہ نیا ٹرانسفار مر لگا نے میں 3سال لگینگے اگر تمہیں بجلی چاہئیے تو چند ہ جمع کر و اور خراب ٹرانسفار مر کو بازار میں لے جا کر ڈھا ئی تین لا کھ روپے میں مر مت کراؤ صارفین مجبوراً اپنے خرچ پر ٹرانسفار مر کی مر مت کر واتے ہیں اگر یہ کمپنی کسی سیٹھ کے ہا تھ فروخت کی گئی تو دو دنوں کے اندر نیا ٹرا نسفار مر آجا ئے گا، سٹیل ملز، ریلوے، پی آئی اے اور گیس یا تیل کمپنیوں کی سرکاری ملکیت کا بھی ایسا ہی حال ہے اب تک نجکا ری اور پبلک پرائیویٹ پا رٹنر شپ کی راہ میں دو رکا وٹیں ہیں پہلی رکا وٹ یہ ہے کہ ہر دور میں حزب اختلاف شور ڈال کر منصو بے کو نا کا م کر تی ہے دوسری رکا وٹ یہ ہے کہ تجار تی کمپنی کو خسارہ میں چلا نے والے ملا زمین ہڑ تال کر کے شور ڈال دیتے ہیں، دونوں کا حل یہ ہے کہ حکومت نجکا ری سے پہلے حزب اختلا ف کو اعتما د میں لے لے اور ادارے کے ملا زمین کے لئے نئی کمپنی میں محفوظ کیرئیر یا یکمشت گولڈن ہینڈ شیک کی سہو لت دے کر مطمئن کر ے کیونکہ ملک اور قوم کا مفاد سب سے مقدم ہے نیز لو گوں کو کاروباری اداروں کے ذریعے خد مات کی تیز تر، شفاف تر اور خو ب تر فراہمی ہر صورت میں لا زم ہے سرکاری تحویل میں کوئی بھی ادارہ کا میا بی سے اپنے فرائض انجا م دیتا ہوا نظر نہیں آتا ایک زما نے میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس ہو اکرتی تھی اس کو ختم کرنے کے بعد نہ حکومت کو کسی قسم کا مسئلہ ہوا، نہ عوام کو اُس کی ضرورت محسوس ہوئی ہوا ئی اڈوں کو نجی ملکیت میں دینایا اوٹ سورس کرنا اچھا فیصلہ ہو گا حکومت کو اس فیصلے کی تر دید نہیں کر نی چا ہئیے۔