داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔ہنر مندو ں کی دُنیا

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔ہنر مندو ں کی دُنیا

دنیا ہمیشہ سے ہنر مندوں کی رہی ہے خا ص کر مو جودہ زما نے کو ہُنر مندی کا زما منہ کہا جا تا ہے، اس لئے ترقی یا فتہ اقوام نے انسا نی وسائل کو ہنر مندی میں تر بیت دیکر ملک کو ترقی دی ہے انجنیرنگ یو نیور سٹی کے پر و فیسر کو اپنی گا ڑی ان پڑھ مستری کے پا س لے جا نا پڑ تا ہے کیونکہ مستری کے پاس ہنر ہے پرو فیسر کے پاس صر ف ڈگری ہے، ہنر نہیں اُس بیچا رے نے پیچ کش کو ہاتھ نہیں لگا یا، اس کو چا بی کے نمبر کا کوئی علم نہیں اس لئے کہا جا تا ہے کہ اولاد کو ہنر سکھاؤ، ہنر حا صل کرنے کے بعد آپ کی اولا د بے روز گار نہیں ہو گی بلکہ ایم اے اور ایم بی اے کرنے والے بے روز گاروں کو اپنے ورکشاپ میں روز گار دے دے گی پریس کلب کے چند صحا فیوں نے عوامی مسا ئل سے آگا ہی کے لئے ایک پہاڑی ضلع کے چار ویلیج کونسلوں کا دورہ کیا تین ہائی سکو لوں میں گئے ایک ہائیر سیکنڈری سکول اور دو مڈل سکولوں کے علا وہ آٹھ پرائمیری سکولوں میں گئے، صحا فیوں کو یہ جا ن کر حیرت ہوئی ان ویلیج کو نسلوں میں آٹھ انجینروں کو پرائمیری، ہا ئی اور مڈل سکولوں میں سکیل 9سے سکیل 14تک مختلف گریڈوں میں استاد بھر تی کیا گیا ہے انجینرنگ یو نیور سٹی کی تعلیم ان کے کا م نہیں آئی 10سال یا 12سال بے روز گار رہنے کے بعد سکول میں ٹیچر، ما نیٹر یا لیڈر بھر تی ہوئے ان کے پا س ڈگری تھی ہنر نہیں تھا ڈگری اور ہنر کے در میان تو ازن نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے پیشے میں مقا م حا صل نہ کر سکے چنا نچہ پیشہ ہی بدل دیا ایک انجینر نے بتا یا کہ ان کے کئی ساتھیوں نے کلر ک اور کے پی او کی پوسٹیں لیکر دفتروں میں کام شروع کیا ہے کیونکہ بے روزگاری سے یہ بھی بہتر ہے ایم اے اور ایم بی اے کرنے والے ہتھ ریڑھیوں پر پھل اور سبزیاں بیجتے ہیں اس کے باو جود نئی نسل ما ں باپ کے مال مویشی اور پھلدار درخت فروخت کر کے یو نیور سٹیوں میں دھڑا دھڑ داخلہ لے رہی ہے اُن کو اعلیٰ تعلیم کا شوق ہے مگرا علیٰ تعلیم کے بعد بے روز گار ی کی طویل بے قراری اُن کی نظر وں سے اوجھل ہے ہنر مندوں کی دُنیا میں بے شمار قابل تقلید مثا لیں ہیں جر منی، فرانس، چین اور جا پا ن گروپ 8کے اہم صنعتی مما لک ہیں ان کے ہاں صرف 5فیصد نو جوان یو نیور سٹیوں میں جا تے ہیں 95فیصد کو 20سال کی عمر سے پہلے ہنر مند بنا کر روز گار دیا جا تا ہے کار خانو ں، زر عی فارموں، ڈیری فارموں، پولٹری فارموں اور دیگر پیداواری یو نٹوں میں ان سے کام لیا جاتا ہے اس کے دو بڑے فائدے ہیں، ماں باپ پر اعلیٰ تعلیم کے اخرا جات کا نا روا بو جھ نہیں ہوتا، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ پیدا واری شعبوں کو ہنر مند افراد ملتے ہیں اور پیدا وار میں اضا فہ ہوتا ہے، معیار بہتر ہوتا ہے ملکی بر آمدات کو بڑھا یا جا تا ہے اور زرمبا دلہ کما یا جا تا ہے ترقی یا فتہ ملکوں میں اعلیٰ تعلیم کے مقا بلے میں انسا نی وسائل کی ترقی (HRD) کا اصول کار فر ما ہو تا ہے وہ ہیو من ریسورس ڈیو لپمنٹ کو ما سٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی پر ہر حال میں تر جیح دیتے ہیں وہ بے روزگار سکا لر پیدا کرنے سے ہنر مند افراد پیدا کرنے کو ملک اور قوم کے حق میں بہتر سمجھتے ہیں اور یہ ان کے حق میں بہتر ثا بت ہوا ہے ہمارے نو جوانوں کی بڑی تعداد کا رخا نوں میں نو کری کر نے ساتھ آر ٹس کے مضا مین میں گریجو یشن کر لیتی تھی گریجو یشن کے بعد ایم اے بھی زیاد ہ مشکل نہیں ہو تا اس طرح ہنر مندی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کی منزل بھی حا صل ہوتی تھی 4سالہ ڈگری کورس اور سمسٹر سسٹم نے پرائیویٹ گریجو یشن کا راستہ بند کر کے نئی نسل پر ایک اور ظلم کیا ہے اب ماں باپ پر 8سمسٹروں کا خر چہ لا د دیا گیا ہے جو غریبوں کے لئے نا قا بل برداشت ہے ووکیشنل ٹریننگ کے موا قع نہ ہونے کے بر ابر ہیں اب تک ملکی اور صو بائی سطح پر ایسا کوئی لیڈر سیا ست اور بیو رو کریسی میں پیدا نہیں ہوا جو ووکیشنل ٹریننگ کو یو نیور سٹی کی تعلیم کے برا بر در جہ دے کر عوام کو ہنر مندی کے لئے ذہنی طور پر تیار کر تا ایسا لیڈر پیدا ہوا تو ہماری نئی نسل ہنر مندی کے ذریعے معا شرے میں اپنا مقام حا صل کرے گی اور ملک و قوم کی بہتر خد مت کر نے کے قابل ہو سکے گی۔