داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔عجیب لگتا ہے
آج کا دن پشاور آوار گی کے لئے وقف تھا اور ذریعہ سفر کچھ میسر نہ تھا سو پیدل ہی اپنا شوق پورا کیا دو چار جگہوں پر مبا رک دینے گیا، ایک جگہ فاتحہ پڑھنے گیا دوست نے پو چھا تم کہا ں سے اپنے دن کا آغاز کر وگے؟ میں نے کہا قلعہ بالا حصار سے، انہوں نے مجھے بالا حصار کے سامنے گاڑی سے اتار دیا شام کو وہیں سے مجھے لینے کا وعدہ کیا، میں نے سوچا قلعہ بالا حصار پشاور کا جھو مر ہے یہاں میرے جا ننے والے دو افیسر ہیں ان میں سے ایک نہ ایک مو جو د ہو گا آدھ گھنٹہ قلعہ کے اندر لگا کر تا زہ دم ہو جا ؤنگا پھر چوک یاد گار، گھنٹہ گھر اور کریم پورہ کی طرف نکل جا ونگا میں نے سو چا تو یا د آیا آخری بار 1976ء میں قلعہ با لا حصار کی سیر کا مو قع ملا تھا جب کپٹن انور بیگ نے مجھے قلعے کی سیر کرائی تھی مسجد کا خطیب ایک بنگا لی عالم دین تھے 46سال بعد قلعے کی سیر کا موقع ملا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی ارائش اور زیبا ئش کو دیکھ کر عجیب لگتا ہے، فرنٹئیر کور نے جس طرح اس کی حفا ظت کی ہے وہ قا بل تحسین ہے یہ وہ قلعہ ہے جسے پشاور کی پہچان کہا جا تا ہے 630ء میں چینی سیا ح ہیون سانگ نے اس مقا م پر باد شاہ کے محل کا ذکر کیا ہے دسویں صدی میں گندھا را کے راجہ جے پال اور راجہ انند پا ل کا محل اس جگہ واقع تھا محمود غزنوی نے 1001سے 1008ء تک یہاں ہندو راجوں سے مقا بلہ کیا جو شہر کا دفاع کر رہے تھے، شہا ب الدین غوری اور ظہیر الدین با بر نے اس قلعے کا ذکر کیا ہے مغلوں کے دور میں یہ قلعہ درانی خا ندان کا پائیہ تخت تھا 1834میں سکھوں نے اس کی تو سیع کا کا م کیا تھا اور 1868کے بعد انگریزوں نے کچے گارے کی دیواروں کی جگہ پکی اینٹوں کی دیواریں تعمیر کیں، جواب تک قائم ہیں واقعی عجیب لگتا ہے آثار قدیمہ میں اس کی سب سے اچھی دیکھ بھا ل ہوئی ہے کسی اور جگہ کی ایسی دیکھ بھا ل نہیں ہوئی پشاور شہر میں ایک دن گذار کر گلی کو چوں کی سیر کر کے واقعی عجیب لگتا ہے شہر کا مزاج اور رنگ تبدیل ہو تا ہوا نظر آتا ہے پہلے یہ گوشت کے لئے مشہور تھا اب گوشت کی جگہ دال نے لے لی ہے جہاں گوشت کی کڑا ہی پکتی تھی وہاں لو بیا، ماش اور چنے کی کڑا ہی پکتی ہے شہر یوں کا ذوق تبدیل ہوا ہے گا ہکوں نے دال کو شا ید گوشت پر تر جیح دینا شروع کیا ہے یا ان کی جیب گوشت کھا نے کی اجا زت نہیں دیتی اگر یہ صورت حال رہی تو شہر میں تکہ کڑا ہی کے بڑے بڑے مرا کز دال کڑا ہی کی دکا نوں میں تبدیل ہو جائینگے پشاور کے با سیوں نے پہلے سوچا بھی نہ تھا کہ ہمیں دال کڑا ہی پر گذارہ کرنا پڑے گا آج یہ حال دیکھ کر عجیب لگتا ہے مجھے یہ دیکھ کر بھی عجیب لگتا ہے کہ شہر میں سیا سی گفتگو سے لو گ اجتنا ب کر تے ہیں اس کی آخر کوئی وجہ تو ہو گی لو گ سما جی تقریب میں یا دوستوں کی عا م بیٹھک میں سیا ست کو منہ نہیں لگا تے، ٹیلی وژن پر خبروں اور حا لات حا ضرہ کے پر وگراموں کی جگہ ایسے چینل دیکھتے ہیں جن میں جا نوروں، درندوں، پرندوں اور چرندوں کو دکھا یا جا تا ہے، مذہبی مو ضو عات پر نئے نئے پرو گرام پیش کرنے والے چینل بھی حالات حا ضرہ کے چینلوں سے زیا دہ دیکھے جا تے ہیں شہریوں کو چینلوں کی ریٹنگ کی کوئی پرواہ نہیں دو چار جگہوں پر اس نئی روش کا ذکر چھڑ گیا تو شہریوں نے کہا ”کان پک گئے ہیں“ یہ بہت بڑا بیان ہے اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے اس تبدیلی کی تو قع نہیں تھی یہ دیکھ کر بہت عجیب لگتا ہے رات ڈھلے دوست نے مجھے قلعہ بالا حصار کے سامنے سے پھر گاڑی میں بٹھا یا ہم نے راستے میں شہر کو ہی مو ضوع گفتگو بنا یا ایک بات جو دونوں کو محسوس ہو رہی تھی وہ یہ تھی پشاور کا شہر غریبو ں، مسکینوں، مزدوروں، مجبوروں اور بے نوا ووں کے لئے اپنی بانہیں وا کر کے رکھتا ہے کا بل اور اسلا م اباد سے پشاور آنے والا یہ دیکھ کر سکھ کا سانس لیتا ہے کہ اس شہر میں کم آمد نی والے کو بھی اپنی بے بضا عتی کا احسا س نہیں دلا تا یہاں کے سرائے میں چار پا ئی آج بھی ملتی ہے یہاں کے فٹ پاتھ پر سستا ظہرانہ آج بھی ملتا ہے، یہاں کے قھوہ خا نوں میں پختہ چائے آج بھی سستے داموں دستیاب ہے اس شہر نے غریب کے لئے، مزدور اور مجبور کے لئے اپنے دروازے آج کے پُر آشوب دور میں بھی بند نہیں کئے حا لا نکہ دوسرے شہروں نے امیر غریب کے درمیان صاف اور واضح لکیر کھینچ دی ہے اور حکم ہے کہ لکیر کو پار نہ کرو، یہ شہر کی ریڈ لا ئن ہے، پشاور کی کوئی ریڈ لا ئن نہیں، ڈاکٹر امجد حسین اور ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے دور شباب میں پشاور شہر کا جو چلن تھا زما نہ گذر نے کے باو جود اب تک و ہ چلن نہیں بدلا شا ید آنے والے وقت میں بھی یہ چلن نہ بدلے، کمپیوٹر کی زبان میں اس چلن کو ”سافٹ وئیر“ کہا جاتا ہے یہ شہر کے اخلا قی اقدار کی عکا سی کا ایک طریقہ ہے، قلعہ بالا حصار نے ہیو ں سانگ کے دور سے لیکر آج تک پشاور کے ہزاروں رنگ دیکھے، مہمان نوازی، رواداری اور با ہمی تعلقات میں گرم جو شی کا رنگ ہر دور میں نما یاں رہا اب بھی نما یاں ہے۔