داد بیداد۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔میرا پشاور
میرا پشاور پچاس سا لوں میں اتنا تبدیل ہو چکا ہے کہ اب مجھ سے پہچا نا نہیں جا تا آج میں جی ٹی روڈ پر جنا ح پار ک سے چند قدم آگے آکر اُس مقام پر کھڑا ہوں جہاں فردوس سینما ہو اکر تا تھا اس بنا ء پر آج بھی اس چوک کا نا م فردوس سینما ہے حا لا نکہ سینما کو مسما ر کر کے اس جگہ بہت بڑا پلا زا بنا یا گیا ہے یہ وہ مقا م ہے جہاں دیوار وں پر فلموں میں لڑا ئی ما ر کٹا ئی کی تصاویر ایسی اویزان یا چسپاں ہو تی تھیں کہ دور دور سے نظر آتی تھیں قصہ مشہور ہے کہ 1965ء میں ایسی ہی تصویر میں خون آلود لا شوں کو دیکھ کر ایک سادہ لوح مائی نے رکشہ رکوا کر دعا کی تھی کہ ”اے خد ارحم کر، ان شہیدوں کے صدقے کشمیر یوں کو آزاد ی دیدے“ اخبارات میں سب سے نما یاں اشتہار ات فلموں کے ہوتے تھے ان اشتہار ات میں ہیرو اور ہیروئین کی محبت کے رومان پرور منا ظر کے ساتھ ویلین کے ہاتھ میں گنڈا سہ کی تصا ویر ہوا کر تی تھیں اخبار کے دفتر میں سب سے دلچسپ کمر ہ وہ ہو تا تھا جس میں کا تبوں کو بٹھا یا جا تا تھا اس کمرے میں دیوار کے ساتھ تختے لگا کر فرشی نشست سجا ئی جاتی تھی ان تختوں کے ساتھ ٹیک لگا کر کا تب حضرات بیٹھتے اور اخباری مواد کی کتا بت کر تے تھے، ہر ایک کے ہاتھ میں کتابت کا تختہ ہو تا تھا سامنے دوات اور ہاتھ میں قلم دیدنی ہو تا تھا کتا بت میں غلطی ہو جا تی تو لفظ، حرف یا سطر کی اصلا ح کا کوئی راستہ نہیں تھا، پورے کا غذ کو دوبارہ لکھنا پڑتا تھا آج کتا بت کی جگہ کمپو زنگ آگئی ہے اور کا تب کی جگہ کمپیو ٹر نے لے لیا ہے کمرہ وہی ہے اس میں کمپیو ٹر رکھے ہوئے ہیں کہیں بھول چوک سے غلطی سرزد ہو جا ئے تو لفظ، حرف اور سطر کی اصلا ح پلک جھپکنے میں ہو جا تی ہے تبھی تو حفیظ جا لندھری نے فن کے حوالے سے لکھا تھا ”تشکیل و تکمیل فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں“ اخباری دنیا میں ایک مشہور نعرہ ہو ا کر تا تھا ”پریس ٹرسٹ کو توڑ دو“ جو بھی سیا ستدان حزب اختلا ف میں آتا وہ پریس ٹرسٹ کو توڑ نے کا وعدہ کرتا پھر حکومت میں آکر اپنا وعدہ بھول جا تا چنا نچہ یہ نعرہ سدا بہار نعرے کی صورت میں ایک بار پھر حزب اختلاف کے ہا تھ آتا اس حزب اختلا ف کو حکومت ملتی تواُسے بھی پریس ٹرسٹ کی ضرورت پڑ تی یہ ٹرسٹ اپنے اخبارات کے ذریعے حکومت وقت کی ہمنو ائی کا کام کرتا تھا سرکا ری اشتہارات کا بڑا حصہ ٹرسٹ کے اخبارات کو ملتا تھا آزاد اخبارات کے لئے جسم و جان کے رشتے کو بر قرار رکھنا دو بھر ہو جا تا تھا الجمعیتہ، سر حد، انقلا ب اور الفلا ح پشار کے آزاد اخبارات تھے جو رفتہ رفتہ ٹرسٹ کے ہاتھوں مغلوب ہوئے اُس زما نے کا ایک اور اخبار ی نعرہ یہ تھا کہ ”عدلیہ کو انتظا میہ سے الگ کرو“ مطلب یہ تھا کہ مجسٹریسی نظام کو ختم کر کے تما م اختیارات انتظا میہ سے لیکر عدلیہ کو دیدو، اس اخباری مطا لبے کو بھی ہرحزب اختلا ف کی حما یت حا صل ہو تی تھی ہر حزب اقتدار اس کو کچل دینے کے دریئے ہو تا ایک اور اخباری نعرہ بڑا مشہور تھا ”کنکرنٹ لسٹ کو ختم کرو“ یہ وفاق کے اختیارات صو بوں کو منتقل کر نے کا مطا لبہ تھا اخبارات کے کو چے سے با ہر آکر ہم شہر پر ایک نظر دوڑاتے تو سارا شہر غریب دوست، مزدور دوست اور طالب دوست تھا طالب مسجدوں میں پڑھنے والا طالب علم تھا، جن کو گھروں سے راشن ملتا تھا ایک لیٹر پٹرول دو روپے کا تھا، ایک روپے میں اچھا معیاری کھا نا ملتا تھا، سوروپیہ جیب میں ہو تو مہینہ بھر کے ٹرانسپورٹ اور کھا نے پینے کے لئے کا فی ہو تا تھا یہ میرا پشاور تھا، یہاں خیبر کیفی میں شہر اور صدر کے دانشور آکر مختلف میزوں کے گرد حلقہ بنا تے تھے اس حلقے میں قاضی سرور کے ساتھ دو چار ریٹائر ڈ بیورو کریٹ بیٹھے ہیں سامنے والے حلقے میں رضا ہمدا نی اور طٰہٰ خان کے ہمراہ شاعروں کا جھر مٹ نظر آتا ہے یہ میرا پشاور تھا ”آئے عشاق گئے وعدہ فردا لیکر اب ڈھونڈانہیں چراغ رخ زیبا لیکر۔