دادبیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔رشوت اور عوام
ایک خبر نظر سے گذری خبر میں الزام لگا یا گیا ہے اور ایک محکمے کا نا م لیکر لکھا گیا ہے کہ وہاں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ایسی خبروں سے یہ تا ثر ملتا ہے کہ افسراور ما تحت عملہ رشوت میں ملوث ہے اور عمومی طور پر رشوت کا الزام صرف لینے والے پر لگا یا جا تا ہے، دینے والے کا ذکر نہیں ہو تا اسلا می تعلیمات میں اس کی پوری صراحت مو جود ہے قرآن پا ک میں عوام النا س اور مسلما نوں کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ تم کسی کی حق تلفی کے لئے حکام کے پاس مت جاؤ تا کہ حکام کی ہمدردی حا صل کر کے کسی دوسرے کا مال ہضم کر سکو، حدیث شریف میں آیا ہے کہ رشوت لینے والا بھی اور رشوت دینے والا بھی دونوں دوزخی ہیں دونوں کا ٹھکا نہ آگ اور جہنم ہے رشوت ایک لین دین ہے جس میں دو فریق ہو تے ہیں یہ ایک قسم کی تا لی ہے جو دو ہا تھوں سے بجتی ہے، کر ک سے تعلق رکھنے والے ایک ا فیسر نے بھری مجلس میں بتا یا کہ دفتری نظام میں رشوت عوام کی وجہ سے آتی ہے کوئی افسر یا ما تحت اہلکار مفت میں کسی کا کام کر دے تو اس کو یقین نہیں آتا وہ کا غذ کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے کہ یہ حکم جعلی تو نہیں؟ اصلی حکم رشوت کے بغیر کسطرح ہاتھ آیا؟ عوام کی بے صبری، پریشانی اور جلد بازی نے دفتروں کا پورا نظام متا ثر کر دیا ہے عوام کا مزاج اس طرح بن گیا ہے کہ معمو لی کام کو بھی دفتری طریقہ کار سے انجام دینے کا انتظار نہیں کرتے لفا فے جیب میں رکھ کر دفاتر کے چکر لگا تے ہیں اور فائل کو پہیہ لگاتے ہیں اگر عوام دفاتر کے چکر نہ لگائیں تو ہر کام قاعدہ اور قانون کے تحت انجام پا ئے گا ہو سکتا ہے اس میں چند دن لگ جائیں مگر کام رکے گا نہیں، مسترد نہیں ہو گا عوام کو دفتروں میں جا نے سے منع کیا جا ئے تو وہ افیسروں اور ما تحت اہلکا روں کے گھروں اور رشتہ داروں کا پتہ کر تے ہیں، لفا فہ لیکر وہاں پہنچ جا تے ہیں اور رشوت دیکر اپنا کام جلدی کرانے کی کو شش کر تے ہیں اچھے خا صے متشرع اور نیک لو گ جب اس دھندے میں پکڑے جا تے ہیں تو انکا ر نہیں کرتے اپنے کام کی تاویل کرتے ہیں کہ رشوت دینے والا راضی ہو کر دیدے تو اس میں کوئی مضا ئقہ نہیں میں اپنی مر ضی سے حق الخدمت ادا کر تا ہوں اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ ایک صاحب نے بھری مجلس میں یہ دلیل دی کہ دفتر والے اگر منہ ما نگی رقم ما نگیں تو بری بات ہو گی، دینے والا اپنی رضا مندی سے اپنی بساط اور تو فیق کے مطا بق چائے پا نی کا خر چہ دیدے تو یہ کوئی جرم نہیں سب ایسا کر تے ہیں، فارسی میں اس طرز عمل کو ”عذر گنا ہ بد تر از گنا ہ“ کہا جا تا ہے یعنی گنا ہ کے لئے جواز ڈھونڈ نا گنا ہ سے بھی برا ہے ایک طرف گنا ہ کر رہے ہو دوسری طرف اس کے لئے جواز تلا ش کر تے ہو، تجربہ کار لو گوں کی نپی تلی رائے ہے کہ عوام رشوت دینے سے تو بہ کریں تو دفاتر سے رشوت کے نا سور کا خا تمہ ہو سکتا ہے خیبر پختونخوا کے سابق چیف سکرٹری مر حوم عبد اللہ نے ایک بار ملا قات کے لئے آنے والے عوامی جر گے کو بتا یا کہ افیسروں کا مزاج تم لو گوں نے خراب کر دیا ہے تم ان کو سر پر چڑھا لیتے ہو، دعوتیں کر تے ہو ، شکا ر پر لے جا تے ہو، قیمتی تحا ئف لا کر ڈھیر کر دیتے ہو اور کام پیش آنے پر نقد رشوت بھی پیش کر تے ہو پھر با ہر نکل کر شکا یت کر تے ہو کہ رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا اگر تم لو گ نا جا ئز خوا ہشات کی تکمیل کے لئے رشوت لیکر دفتروں کے چکر نہیں لگا و گے تو کوئی بڑا یا چھو ٹا اہلکار تمہارے گھر آکر تم سے رشوت نہیں مانگے گا، رشوت کا بازار دفتر والوں نے گر م نہیں کیا، یہ بازار عوام نے خود گرم کیا ہوا ہے عوام کی نظر میں اچھا افیسر وہ ہے جو کھا نے کھلا نے والا ہو تکڑا با بو وہ ہے جو ”مک مکا“ جانتا ہو اچھا قومی نما ئیندہ وہ ہے جو بڑی بڑی رشوتیں لیتا ہو ایسا نہ ہوتو اس کو بزدل، بے کار اور فضول آدمی کانام دیا جا تا ہے رشوت کا نا سو ر عوام کی وجہ سے پھیلا ہے عوام ہی اس کو ختم کر سکتے ہیں۔