داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔صارفین کی طا قت
مہنگا ئی کا رونا سب روتے ہیں مگر مہنگا ئی کو قا بو کر نے کے لئے کوئی میدان میں نہیں آتا گذشتہ ہفتے بجلی کے بلوں میں تیل کی قیمت ڈال کر دو ہزار کو سات ہزار تک لے جا نے کے خلا ف عوام سڑ کوں پر آئے تو حکومت نے فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ (FPA) کے نا م سے لگا ہوا ٹیکس واپس لے لیا یہ صارفین کی طا قت ہے اور صارفین کو اس طا قت کا اندازہ بھی ہے جو لوگ بازار کے نر خوں پر ریسرچ کر تے ہیں یا بازار کے نر خوں کا روزانہ حساب دیکھتے ہیں ان کی تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ مہنگا ئی تین طرح کی ہو تی ہے پہلی قسم وہ ہے جو عالمی سطح پر تیل اور ڈالر کی قیمت میں اضا فے سے آتی ہے دوسری قسم وہ ہے جو ملکی سطح پر اشیا کی طلب بڑھنے اور رسد کم ہونے سے آتی ہے، تیسری قسم وہ ہے جو صارفین کی غلطی سے آتی ہے اور پا کستان میں مہنگا ئی زیا دہ تر صارفین کی غلطیوں سے آتی ہے یہ بہت بڑی بات ہے اس کی وضا حت ضروری ہے صارف کو انگریزی میں کنزیو مر کہتے ہیں اور ما رکٹینگ کے اصولول میں صارف یا کنزیو مر کو ریڑھ کی ہڈی کا در جہ دیا جا تا ہے کیونکہ ما رکیٹ کی طا قتیں صارف یا کنزیو مر کی پسند اور نا پسند کو دیکھتی ہیں اس مقصد کے لئے بڑی بڑی رقوم خر چ کر کے سروے کر تی ہیں سروے کے نتیجے میں آنے والی مصنو عات یا اشیاء کی قیمتیں مقرر کر تی ہیں مثلا ً اگر صارفین کی 51فیصد تعداد کسی پراڈکٹ کی مو جو دہ قیمت پر مطمئن ہے تو مارکیٹ میں اس کی نئی قیمت میں 10فیصد اضا فہ کیا جا تا ہے اگر صارف مطمئن نہیں تو قیمت میں کمی لا ئی جا تی ہے ما رکیٹ پر راج کر نے والی طاقتیں ہر حال میں اپنا پروڈکٹ بیچنا چاہتی ہیں اور صارفین کا اعتما د یا تعاون حا صل کرنا چاہتی ہیں کسی پراڈکٹ کے خلا ف صارفین احتجا ج کریں تو کار خا نے کی بڑی بد نا می ہو تی ہے سر ما یے کا نقصان ہو تا ہے دوسری مثال یہ ہے کہ تھوک فروش اور پر چون فروش نقلی اور غیر معیا ری گھی، چائے مصا لحہ وغیرہ اصلی اور معیا ری مال کی قیمت پر بیچتا ہے، صارفین کسی چون و چرا کے بغیر خرید تے ہیں سر کاری مجسٹریٹ چھا پہ مار کر نقلی پرو ڈکٹ کو ضبط کرے، دکا ن یا کارخا نے کو بند کرے تو قانونی کار وائی کے لئے صارفین گواہی اور شہا دت دینے پر اما دہ نہیں ہوتے، شکا یت کرنے والا بھی اپنا نا م ظا ہر نہیں کر تا، لیبارٹری میں نمو نہ بھیجا جا ئے تو لیبارٹری کے اندر بیٹھا ہوا صارف چند پیسوں کی خا طر اپنے بچوں کی زندگی خطرے میں ڈالتا ہے اور دو نمبر ما ل کو ایک نمبر کا سر ٹیفکیٹ دے کر قانون کو خا موش کر تا ہے حالانکہ وہ خود کنزیو مر ہے اس کا مفاد درست رپورٹ دینے میں ہے مگر وہ ایسا نہیں کر تا ایسے موقع پر وہ صارف ہو نے کا حق ادا نہیں کر تا ایک باد شاہ کا واقعہ ہے باد شاہ نے سونے کے پا نچ سکے دیے اور سیب لا نے کا حکم دیا، باد شاہ کے اہلکار نے دکاندار کو ڈرا دھمکا کر مفت سیب لے آیا کچھ اپنے گھر چھوڑا، کچھ داروغہ کو دیا اور 5سیب باد شاہ کی خد مت میں پیش کئے باد شاہ نے ملکہ سے مشورہ کیا کہ اگر سونے کے 5سکوں میں 5عدد سیب آتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ لو گ بہت دولت مند اور خوش حال ہیں اتنے مہنگے سیب خرید تے ہیں کیوں نہ ان پر نیا ٹیکس لگا یا جا ئے ملکہ نے تائید کی، باد شاہ نے نیا ٹیکس لگا دیا، یہ طریقہ واردات آج کل کے صارفین کے خلا ف بھی ہو رہا ہے صارفین نے سڑ کوں پر آکر بجلی کے بلوں میں عارضی اور معمو لی ریلیف حا صل کیا ہے اس سلسلے کو یہاں ختم نہیں ہونا چا ہئیے مسلسل جا ری رہنا چا ہئیے بجلی کے بعد صارفین کو مو با ئل فون کی کمپنیوں کے خلاف میدان میں آنا چا ہئیے، دنیا کے کسی بھی ملک میں یہاں تک کہ نیپال، سری لنکا، بھوٹان اور افغا نستا ن میں بھی مو بائل فون کارڈ یا ایزی لوڈ پر صارف سے ٹیکس نہیں کا ٹا جا تا، 100روپے ادا کریں تو 100روپے کا بیلنس ملتا ہے کمپنی کو کا ل ملا نے پر فائدہ ہو تا ہے اس فائدہ کو بڑھا نے اور صارفین کی تو جہ حا صل کر نے کے لئے پیکیج بھی دیا جا تا ہے ہمارے ہاں آپ 100روپے کا بیلنس لے لیں تو 28روپے کا ٹیکس لیا جا تا ہے پیکیج لے لیں تو 20روپے کا ٹے جا تے ہیں آپ سات منٹ بات کریں تو میسج آجا تا ہے آپ کا بیلنس ختم ہوا ری چارچ کریں ہمارے دوستوں نے 10کمپنیوں کے سم بدل کر دیکھا سب کا یہی حال ہے اس لئے صارفین اگرایک ہفتے کے لئے تما م کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور عدالت سے رجوع کریں تو لوٹ مار ختم ہو سکتی ہے صارفین کی بڑی طا قت ہے۔