داد بیداد۔۔۔ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی۔۔۔شاعر کا آخری مجمو عہ
شاعر نے اپنی وفات سے پہلے مجمو عہ کلا م کی تدوین کا کا م مکمل کرکے نام بھی رکھ لیا تھا وفات کے بعد اس کے کمرے سے مجمو عہ کلا م برآمد ہوا تو اس کو آخری مجمو عہ ہی کہا جا سکتا ہے یہ خیبر پختونخوا کے جوان مر گ شاعر خا لد بن ولی شہید کی کتاب ہے جو ان کی وفات کے چار سال بعد شائع ہوئی کیونکہ ان کے والد عبدا لولی خان عابد کی ہمت جواب دے گئی تھی اس نے چار سال تک اس کتاب کے مسودے کو سینے سے لگا ئے رکھا، کہا نی دلچسپ بھی ہے دردنا ک بھی اور حسرت نا ک بھی ہے خا لد بن ولی شہید کا شمار دنیا کے ان ہونہار اور پُر ہنر شاعروں میں ہو تا ہے جنہوں نے کم عمری میں نا م کما یا، ادبی دنیا کو متاثر کیا اور ادبی کینو س (Canvas) پر گہرے نقوش چھوڑ کر کم عمری میں فانی دنیا سے رخت سفر باندھا اٹلی سے تعلق رکھنے والے انگریزی کے بے مثال رومانوی شاعر جو ن کیٹس 25سال کی عمر میں چل بسے، اٹلی ہی کے دوسرے شاعر شیلے 30سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے پا کستان میں اردو کے بے مثل شاعر مصطفی زیدی نے 40سال عمر پا ئی جبکہ خا لد بن ولی نے شہادت پا ئی تو ان کی عمر 35سال تھی وہ 3ہزار سالوں سے خیبر پختونخوا میں بو لی جا نے والی قدیم زبان کھوار کے شاعر تھے ان کے ہاں عبدالحمید دعدم کی مستی، جگر مراد ابادی کا تغزل اور اختر شیرانی کا رومانوی طرز ہمیں ملتا ہے، نظم ہو، قطعہ ہویا غزل ان کے ہاں الفاظ کا ترنم اور خیالات کا رقص بہم مل جا تا ہے خیال ارائی آ گے آگے ہوتی ہے الفاظ کی لے پیچھے پیچھے چلتی ہے دونوں مل کر جھومتے ہیں اور قاری کو جھو منے پر مجبور کر تے ہیں تہ بزمہ گیکو سوم برروئے بمو رو عاشق مجنو ن بیتی بو غار آخرا تیری بزم میں فرزانہ بھی آجا ئے تو اخر کار عشق میں دیوانہ ہو جا تا ہے پولو ار باس گنی آخرا جگر، کھو شُون کھوشُون بتی بوغار آخرا جگر میں آگ کے شعلے اُٹھتے ہیں اور جگر آخر کار دھواں دھواں ہو کر ختم ہو جا تا ہے خا لد بن ولی شہید وہ شاعر ہے جس نے میرے سامنے تین نسلوں کو اپنے سحراور جا دو میں گرفتار کیا میرے والد 80سال کی عمر میں ان کے گرویدہ ہو گئے تھے میں خود 50سال کی عمر میں ان سے متاثر ہوا جبکہ میرا بیٹا محمد فاروق 15سال کی عمر سے اس کا گرویدہ چلا آرہا ہے یہ خصوصیت بہت کم لو گوں میں ہو تی ہے کہ ان کے چاہنے والوں میں 80سال کے بوڑھے 50سال کے ادھیڑ عمر اور 15سال کے جواں ایک ساتھ شامل ہو ں ہم نے میر تقی میر اور فانی بدایو نی کے ہاں ”رونے“ کی تکرار دیکھی اور سنی ہے جون ایلیا اور پروین شاکر کے ہاں ہمیں قدم قدم ایک گم گشتہ یار ملتا ہے جو شاعر ی میں ”وہ“ کہلا تا ہے لیکن اس کا تسلسل اخباری زبان میں ”مسنگ پرسن“ کا تاثر دیتا ہے اس طرح خا لد بن ولی شہید کے کلا م میں موت اور قبر کے استعارے ہمیں باور کرا تے ہیں کہ شاعر کے وجدان نے انہیں مو ت سے پہلے ہی مو ت کا گہرا شعور بخشاتھا وہ دنیا کے جھمیلوں میں مگن تھا مگر مو ت ہر وقت ان کے سامنے ہو تی تھی کیڑی مہ بریکو تاب ہوئے ہر دیو مہ پھت کو رونیان، مہ سم آفت توریکو روئے کو سیا ست کورونیان میں اتنا رویا ہوں کہ قریب المر گ ہوں لو گوں نے میرے دل کو چھلنی کر دیا ہے مجھے آفت نے گھیر لیا ہے لو گوں کو سیاست کی کیا پڑی ہے؛!زندہ اسیکہ ہنون مہ غیچ تہ ویسی پُر نم، تہ گیگ یرا مہ بریکا ر اچی کہ حا جت بیسیرجبکہ زندہ رہا تیرے انتظار میں میری آنکھیں آنسووں سے تر رہیں میری مو ت کے بعد تمہارے آنے کا جا نے کیا فائدہ ہو گا! قبر کا منظر ایک نئے اور اچھوتے پیرایے میں لاتے ہیں غزل کا شعر ہے تتے لو کھین دیتی مکا ن ارینی، قالبو گاز دیتی شوتران اوانی دیکھو لو گ کدال لیکر تیرا مکان بنا رہے ہیں، تیرے قد کے نا پ کے دھا گے لیکر جا رہے ہیں خا لد بن ولی شہید نے برینس چترال کے خسرو خیل قبیلے میں عبد الولی خان عابد کے ہاں 1983میں آنکھ کھو لی لینگ لینڈ سکول چترال سے میٹرک، نثار شہید کا لج رسالپور سے ایف ایس سی اور اسلا میہ کا لج پشاور سے گریجو یشن کرنے کے بعد خیبر لا کا لج پشاور یو نیورسٹی سے ایل ایل بی کر کے پی ایم ایس کا امتحا ن دیا اور اکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں ملا زمت کی پھر عدلیہ کا امتحا ن پا س کر کے سول جج تعینات ہوئے لیکن تھوڑے عرصے بعد استغفٰی دیکر واپس اکسا ئز اینڈ ٹیکسیشن میں آگئے وہ یار باش تھے پو لو کھیلتے تھے مشاعروں میں جا تے تھے، سما جی کا موں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اس لئے عدلیہ کی پا بند زندگی انہیں راس نہیں آئی، ان کا ایک کمال یہ تھا کہ انہوں نے کم عمر ی میں والد گرامی کے ہمراہ فریضہ حج ادا کیا روضہ رسول ﷺ پر حا ضری دی، کم عمری میں ہی اپنا پہلا مجمو عہ کلا م شائع کیا اس کے بعد شہزادہ شمس الدین کی بیٹی کے ساتھ ان کی شادی ہوئی شہا دت سے 7ماہ پہلے ان کی بیٹی پیدا ہوئی یہ سارے کا م اتنی عجلت میں ہوئے گویا ان کو جا نے کی جلدی تھی آخر 20اکتو بر 2018کو مردان کے قریب حا دثے میں شہید ہو گئے شہا دت سے پہلے مجمو عہ کلا م کا نا م دل کی دل تنگی ہر دی پھت ہر دی رکھ دیا آخری شعر کا تر جمہ ہے دو دن کی بہار کو جا نے دو میں نے خزاں میں عمر بسر کی ہے۔