دھڑکنوں کی زبان …محمد جاوید حیات… ”تماشہ گاہ“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان …محمد جاوید حیات… ”تماشہ گاہ“
پاک سر زمین کیپہلے باقاعدہ فوجی امر جنرل ایوب خان کو پاکستان کا پہلا دارالخلافہ کراچی دشمن کے شر سے محفوظ نہیں لگا اور یوں بھی ملک کے ایک کونے میں تھا وہاں بیٹھ کے ”ملک سنوارنے والے اور کاروبار سلطنت چلانے“ والوں کا پورے ملک کی خیر خبر حاصل کرنے اور دکھ درد کا بروقت مداوا کرنے میں مشکل ہوتی تھی۔۔کیونکہ دریا? فرات دورتھا اور کتے کی پیاس کی خبر کیا آتی۔وہ تیز میڈیا کا دور نہیں تھا۔شکر پڑیاں اور دامن کوہ کی پہاڑیاں گواہ ہیں کہ وہاں پر کھڑے خواب دیکھا گیا کہ نیچے جنگل کو کاٹ کر شہر آباد کیا جا? گا۔۔”درندوں“ کو بھگا کریہاں پر”انسان“آباد کی? جائنگیاس شہر کا نام ”اسلام آباد“ رکھا جا? گا۔ شکر پڑیاں اور دامن کوہ کی پہاڑیاں ان یادوں کو محفوظ کی? ہو? ہیں۔شہر کی ڈیزاین بنا?ی گ?۔۔یہاں پر پارلمنٹ ہاوس بنے گا قوم کے لیڈرز اس عمارت میں قوم کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر کریں گے۔یہاں پر صدر مملکت کے ل? گھر بنایا جا? گا۔اس میں ملک کا صدر قیام کریں گے۔یہاں پر وزیر اعظم کے ل? گھر بنے گا۔۔یہاں پر کالونی بنے گی قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران دن بھر قوم و ملک کے ل? سوچتے سوچتے تھک جا?یں گے تو قیام کریں گے۔یہاں عدالت کی عمارتیں بنیں گی۔۔دارالقضا، دارالعدل، انصاف کے کمرے جہان پر مجبور اور بے قصور کی داد رسی ہوگی یہاں پر محافظوں کے ل? عمارتیں بنیں گی۔ وہ ان کے اندر آرام سے کیا سو?یں گے ملک کے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جاگتے رہیں گے۔یہاں پہ دوسرے ممالک کے سفیروں کے ل? گھر بنیں گے یاں پہ پولیس ٹھرے گی یہاں پہ ہوٹلیں ہونگی۔۔یہ”پوش“ ا?ریا ہوگا۔۔یہ”گریں“ ایریا ہوگا۔یہ”بلیو“ ایریا ہوگا۔۔۔لیکن کہیں ”رڈ زون“ نہیں ہوگا۔۔۔no go area۔۔۔یہ چوراہے یہ چوکیں۔۔عرضیکہ خواب نگر کی تعمیر شروع ہو?ی۔۔۔مکمل ہو?ی۔۔۔کسی کو کیا پتہ تھا کہ یہ تماشا گاہ ہوگا۔۔یہاں پر صرف عمارتیں ہی نظر آ?یں گی۔باقی یہ جنگل ہی رہے گا۔درندے انسان نما ہونگے۔انسانی لباس کہیں نظر نہیں آ? گا۔فحاشی عریانی ہوگی۔عدالتوں میں انصاف نہیں ہوگا یہ عمارتیں یہ کرسیاں اس المیہ پہ رو?یں گی۔پارلمنٹ ہا?س میں نما?ندوں کی بولیاں لگیں گی ایمان بکے گا بیرونی سفیروں کے گھروں کے اندر سازشیں ہونگی۔اپنے ان کا ساتھ دیں گے۔۔بنکوں میں سود کا کاروبار ہوگا۔ہوٹلوں میں رقص و سرور کی محفلیں ہونگی۔مسجدیں ویراں رہیں گی۔ملک کیحکمران تک جھوٹ بولے گا دھوکہ دے گا۔بد عنوانیوں کا بازار گرم ہوگا۔جنگل کے درندے دور دور ٹیلوں پہ بیٹھے انسانوں پر ہنسیں گے۔ یہ اغیار کے ل? تماشا گاہ ہوگا مہذب قومیں اس بے چاری قوم کے ل? افسردہ ہونگی۔کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔اس قوم کے نما?ندوں کو ان کے بیرونی آقا تکنی کا ناچ نچادیں گے۔ان کو خریدا جا? گا۔ان کو بیھجا جا? گا۔یہاں پر کسی خواب کی کو? تعبیر نہیں ہوگی۔۔اس امر کی نیت میں کھوٹ تو نہیں تھی کہ ایک ”خواب نگر“ کی تعمیر کرے وہاں پر قوم کی تقدیر کا فیصلہ ہو۔اگر وہ یہ سوچتا کیا ٹھیک نہیں تھا کہ میں ایک تماشا گاہ بنا رہا ہوں واں صرف باتیں ہونگی۔کام نہیں ہوگا۔بنی بنا?ی قوم مقروض بنے گی۔۔دن رات محنت کریگی مگرم دردر کی ٹھوکریں کھا? گی۔اپنی جان کھپا? گی مگر دنیا کے سامنے شرمندہ رہے گی۔۔ساری دنیا ترقی کرے گی مگر وہ اپنوں کے ہاتھوں برباد ہوجا? گی۔تماشا گاہ کی جب بنیاد رکھی جا رہی تھی تو کہا گیا تھا کہ ”جنگل کے درندوں کو بھگایا جا? گا“۔۔۔۔واقع کیا جنگل کے درندے اس تماشا گاہ سے بھاگ گ? ہیں؟؟؟