اولین بااختیار خواتین چترال (تحریر: ایڈوکیٹ نیاز اے نیازی چترال)
آج سے چونتیس سال پہلے کی بات ہے جب میں پرائمری اسکول رائین، تورکھو کا طالب علم تھا۔ اسکول کی چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے دائیں جنالی میں لوگوں کا اجتماع دیکھا۔ تجسس ہوا کہ دیکھیں کیا ماجرا ہے۔ اجتماع میں گھس گیا اور یہ دیکھ کر مجھے بے حد عجیب سا لگا کہ ایک خاتون جلسے سے خطاب کر رہی تھی۔ اسے یہ کہتے ہوئے سنا، ” میرے بزرگو اور بھائیو! میں تمہاری بیٹی ہوں۔ مستوج کے یارخون سے تعلق رکھتی ہوں۔ قومی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار ہوں۔ اگر آپ حضرات مجھے کامیاب کریں گے تو میں لواری ٹنل پر کام شروع کرواوں گی”. کافی لمبی تقریر کی اور چلی گئی۔ بتایا گیا کہ بیگم شیرولی خان ہیں۔ ہمیں اس وقت نہ ووٹ کی اہمیت کا پتہ تھا اور نہ یہ معلوم تھا کہ قومی اسمبلی کیا ہے؟ اس خاتون کے لواری ٹنل سے متعلق بات مجھے یاد رہی کیونکہ درہ لواری کی سردیوں میں چھ سات مہینے سالانہ بندش اہل چترال کا سب سے بڑا مسلہ تھا اور جس سے مجھ جیسا بچہ بھی واقف تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا سیاست میں آنا اور یوں مردوں کے جلسے سے خطاب کرنا بڑی انہونی بات تھی کیونکہ ہمارا سماج قبائلی تھا۔ خواتین کی تعلیم کو بھی معیوب خیال کیا جاتا تھا۔ ہماری تحصیل تورکھو میں چترال میں معدودے چند افراد نے اپنی بچیوں کو تعلیم دلانے کا سوچا تھا۔ اس قسم کی سوسائٹی میں ایک جوان عورت کا عوامی اجتماع میں بولنا ہمارے بزرگوں کو بہت ناگوار گزرا تھا۔ اگرچہ بیگم اسیر انتخاب ہار گئی مگر سیاست میں آنے والی چترال کی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ چترال میں خواتین کو بااختیار بنانے کی طرف یہ پہلا عملی قدم تھا۔ قبائلی ذہنیت کو توڑنے کی جرآت کرکے انہوں نے چترال کی خواتین کو سیاست میں آنے کی حوصلہ افزائی کی۔
بیگم شیر ولی خان اسیر کا شمار چترال کے ان چند خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے چترال میں تعلیم نسواں کی ابتدا کی تھیں۔ ان باہمت خواتین کے والدین کے نام بھی چترال کی تعلیمی تاریخ میں اس حوالے سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
چترال سے بیگم پروفیسر کریم اللہ، بیگم پروفیسر رحمت نبی، بیگم حیدری، محترمہ صالحہ، محترمہ سعیدہ، محترمہ جہاں آرا، محترمہ روشن آراء، بیگم بابو (,پروفیسر عبد السمیع کی ساس) محترمہ تاج بی بی، محترمہ سراج النساء، محترمہ حبیب النساء، محترمہ بیگم شیر احمد دروش، محترمہ بڑی مس راضیہ، محترمہ پری زاد، محترمہ نسرین، محترمہ گلسمبار بیگم مرحومہ، محترمہ گلستان عزیز ریشن، محترمہ لعل زمرد بونی، بیگم سید احمد (سابق ایم پی اے) اور چند ایک دوسری خواتین بھی ہیں جنہوں نے نہ صرف چترال کی اولین تعلیم یافتہ خواتین ہونے کا اعزاز پایا بلکہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں چترال کی بیش بہا خدمات بھی انجام دیں۔ ان کی دیکھا دیکھی چترال میں بچیوں کی تعلیم کی راہیں کھل گئیں۔ اس لیے خواتین کو بااختیار والی یہ پیشرو خواتین اور ان کے والدین خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
خواتین کو حقوق دلانے میں اللہ کے آخری نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب پہلے رہنمائی فرمائی تھی۔ اپنی بیٹیوں اور بیگمات کو جو عزت دی وہ دنیا والوں کے لیے عمدہ ترین مثال ہے۔ بدقسمتی سے بعد کے علماء نے اس سلسلے میں منفی سوچ رکھی۔
چترال اور گلگت بلتستان میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ترقی اور خواتیں کو با اختیار بنانے میں سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم اور پرنس کریم آغا خان چہارم کے اداروں کی خدمات کا ذکر نہ کریں تو بے انصافی ہوگی۔ سن ساٹھ کی دہائی سے صحت کے شعبوں میں زچہ بچہ سنٹرز اور ابتدائی اور ثانوی تعلیمی اداروں کا قیام عمل لاکر تعلیم عام کرنے میں سرکار سے بڑھ کر کام کیا اور کر رہے ہیں۔ آج ان دور افتادہ علاقوں میں معیاری تعلیم اور علاج معالجہ کی بہترین سہولیات کی فراہمی میں سرگرم عمل ہیں۔ ان بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی میں آغا خان ترقیاتی نٹ ورک کی خدمات قابل قدر ہیں۔