داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔اسلا می تعلیمات کا خلا صہ
28اکتو بر 2021کو افغا نستان کی امارت اسلا می کی نو ٹس میں یہ بات لا ئی گئی کہ ڈالر 76افغان روپے کے مقا بلے میں اوپر جا کر 92افغا نی کا ہو گیا ہے اس خبر پر افغا ن بانک ملی کے سر براہ نے تمام حکام کا اجلا س بلا یا، سادہ لباس اور کا لی پگڑی میں ملبوس مو لوی نے کہا عذر اور بہا نہ مت بنا ؤ، اعداد وشمار کو آگے پیچھے کر کے مجھے سمجھا نے کی کوشش نہ کرو 24گھنٹوں کے اندر 76افغان کرنسی کا ایک ڈالر ہونا چا ہئیے یہ ہمارے قومی اور ملکی مفاد کا تقاضا ہے اور 29ستمبر 2021کو ڈالر کا ریٹ گر کر 76افغا ن کرنسی کی سطح پر آگیا یہ امارت اسلا می کی بے سرو سا ما نی کا ابتدائی زما نہ تھا بے سرو ساما نی اب بھی ہے دشمنوں کی طرف سے پا بندیاں مو جو د ہیں مگر امارت اسلا می کے ذمہ دار مو لویوں نے ڈالر کو سر اٹھا نے نہیں دیا اس کی وجہ ان کا پختہ ایمان ہے ایمان کی وجہ سے وہ دشمن سے نہیں ڈر تے دشمن کی پروا نہیں کر تے اسلا می تعلیمات میں سیا ست کا حل بھی ہے معیشت کا حل بھی ہے مو لا نا اشرف علی تھا نو ی ؒسفر پر جا رہے تھے ایک پاوں ریل کے دروازے پر تھا دوسرا پاوں پلیٹ فارم پر رکھا تھا ایک شخص نے سلا م کیاا ور پو چھا اسلا م کیا ہے؟ حضرت تھا نوی ؒ نے دوسرا پاوں ریل کے در وازے پر رکھنے سے پہلے کہا اللہ کی عبادت، رسول کی اطاعت اور مخلوق کی خد مت کا نا م اسلا م ہے مو لا نا محمد احمد لکھوی سے کس نے سوال کیا ملکی معیشت کو درست کرنے کا اسلا می نسخہ کیا ہے؟ مو لا نا نے کہا خود بھی جیل کھاو گے مجھے بھی قید کر او گے سائل نے کہا ایسی کوئی بات نہیں آپ کے جواب کو ”وہ“ دل پر نہیں لینگے مو لا نا نے کہا اس کا اسلا می نسخہ حضرت ابو بکر صدیق ؓاور حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلا فت میں ملتا ہے سائل نے کہا مجھے مختصر جواب چاہئیے اور ایسی بات چاہئیے جو سب کی سمجھ میں آئے، مو لا نا نے کہا اچھا یہ بات ہے تو سن لو، حکمران کا طرز زندگی مزدور کے برابر ہوگا، بینکوں کا لین دین بند ہو گا اور قومی خزانہ ہر شہری کی کفالت کرے گا تو معیشت مستحکم ہو گی جواب سن کر سائل نے کہا مو لا نا صاحب! آپ نے واقعی مجھے ڈرا دیا اس جوا ب پر تو ہم دونوں کو نیب کے حوالات میں بھیجنے کا اہتمام ہو سکتا ہے کیونکہ آپ نے سانپ کی دم پر پاوں رکھ دیا ہے معیشت کے تین اسلا می اصو لوں کو سیا ست کے تین اسلا می اصو لوں کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو بات آسا نی سے سمجھ میں آجا تی ہے کہ اسلا می تعلیمات کا یہی خلا صہ ہے جب مسلما ن سیا ستدان، وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم اللہ تعا لیٰ کا عبا دت گذار ہو گا تو عہد ے پر رہتے ہوئے مزدور جیسی زند گی گزار ے گا وہ خلا فت راشدہ اور پا نچویں خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز کی طرح حکو مت کرے گا ڈیڑ ھ ارب روپے کی دس دس گاڑیاں اس کے استعمال میں نہیں ہو نگی 300پو لیس کی نفری اس کی حفاظت پر ما مو ر نہیں ہو گی وہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری اٹھا کر غریب کے گھر میں پہنچا ئے گا لیکن یہ بات آسا ن نہیں مشکل ہے آج اس بات پر کہنے اور لکھنے والے کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے ڈیڑھ ارب روپے ما لیت کی دس دس گاڑیاں نہیں ملینگی تو وہ سیا ست میں کیوں آئے گا، حکمرا ن کیوں بنے گا، 300سپا ہی اس کی حفاظت پر ما مور نہیں ہو نگے تو وہ ایسا عہدہ کیوں قبول کرے گا، اسی طرح دوسرا اصول یعنی رسول اکر م ﷺ کی اطاعت کرے گا تو سودی کاروبار بند کرنا پڑے گا بینکوں کو تا لا لگا کر سارا سرما یہ بازار میں لا نا پڑے گا، سرما یے کی گردش سے غریب کو روز گار ملے گا، مزدور کو مزدوری ملے گی سر ما یے کا حجم آج کے مقا بلے میں دس گنا بڑا ہو گا ملک میں ہر طرف خو شخا لی ہو گی،حکمران کا مقصد عوام کی خد مت ہو گا تو ضرورت سے زیا دہ مال غریب کو دے گا قومی خزانے سے غریب کی کفا لت ہو گی امیر اور غریب کا فر ق مٹ جا ئے گا یہ اسلا می تعلیمات کا خلا صہ ہے اس پر عمل کرنا مشکل نہیں اگر کا بل کی حکومت اس پر عمل کر سکتی ہے تو کسی دوسرے ملک کی حکومت کیوں عمل نہیں کر سکتی اصل بات ایمان کی ہے۔