دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔’چترال کی ایک ہونہار بیٹی“۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔’چترال کی ایک ہونہار بیٹی“۔۔۔۔
سیانے کہتے ہیں کہ عقل پہاڑوں میں پیدا ہوتی ہے اور شہروں میں پرورش پاتی ہے باکل اسی طرح ہی چترال کے پی کا پسماندہ ترین ضلع ہے یہاں پر اور سہولیات کی عدم دستیابی کیعلاوہ کو?ی بہترین تعلیمی ادارہ بھی نہیں جو ایچیسن، بارن ہال، نمل پشاور ماڈل وغیرہ کا مقابلہ کر سکے مگر شاباش ہے ان بچوں کو کہ وہ ان نمایان اداروں کے طلبائکا بھر پور مقابلہ کرتے ہیں۔یہاں اسی طرح کے دورہ افتادہ اور پسماندہ گاوں کی بیٹی کی کہانی ہے جس نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ محنت،لگن شوق اور ذہن کے راستے میں جغرافیہ کو?ی رکاوٹ نہیں۔۔فرحانہ شریف واشچ تورکھو میں پیدا ہو?ی۔باپ سرکاری ملازم ہے۔خاندان متمول اور علم کا دلدادہ ہے ہر طرح کی قربانی دے کر بچوں کو زیورات تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں۔شریف اللہ فرحانہ کے ابو خود محکمہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔۔فرحانہ نے عارف پبلک سکول میں داخلہ لیا اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کیا یہاں پرعزیز بیگ جیسے مخلص اور محنتی استاد اور مربی ملے۔۔گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج میں داخلہ لیا کالج میں ایف ایس سی میں اول آ?ی۔۔کالج کی طرف سے حوصلہ افزا?ی ہو?ی انعام ملا۔بی ایس سی میں ایس بی بی یو یونیورسٹی سے 550 میں سے 446 نمبر لے کر یونیورسٹی میں تیسری اور اپنے مضمون میں پہلی پوزشن حاصل کی۔پشاور یونیورسٹی میں میتھیمیٹکس میں داخلہ لیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔اگر چہ یہ انہونی بات نہیں لیکن اتنیپسماندہ علاقے کی بچی داد وتحسین کے قابل ہے۔۔سوال ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ جوہر شناس ہے۔۔یقینا یہ ٹیلنٹ یورپ میں ہوتا تو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔۔جوہر کی قدر ہوتی اس کو وہ میدان مہیا کیا جاتا کہ اس کی صلاحیت ملک و قوم کے کام آتی۔۔اس سے ریسرچ کرا?ی جاتی اس کومفت تعلیم مہیا کیا جاتا اس کو بہترین تجربہ گاہ میں سہولیات فراہم کی جاتی۔۔۔لیکن اس بچی کی تعریف کرتے ہو? انگشت بدندان ہونا پڑتا ہے کہ وہ اپنی جستجو کی راہ میں کھٹک جا?۔مجبورا کو?ی جاب ڈھونڈے روزگار کی جستجو کرے اور اس کا شوق اور صلاحیتیں سرنڈر کر جای?ں۔۔فرحانہ جیسی بچیاں ہمارے سامنے سراپا سوال ہیں کہ ان کی صلاحیتیں ہماری امانت ہیں۔یہ قوم کے ہیرو ہیں۔یہ بقول شاعر قبیلے کی آنکھ کا تارہ ہیں ان پر قوم فخر کرتی ہے۔۔فرحانہ کے ابو آفرین کے مستحق ہیں کہ انہوں قوم کے اس موتی ضایع ہونے نہ دیا اوراپنے محدود وسا?ل کے ساتھ ان کو اس مقام تک پہنچایا کہ آج فرحانہ گولڈ مڈلسٹ ہیں۔