چترال میں ضلعی انتظامیہ کے افسران کا پیر کے روز غیر قانونی ہڑتال کا نوٹس لیا جائے ظفر حیات ایڈوکیٹ صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن لویر چترال

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نما یندہ چترال میل) ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن لویر چترال کے صدر ظفر حیات ایڈوکیٹ نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ چترال میں ضلعی انتظامیہ کے افسران کا پیر کے روز غیر قانونی ہڑتال کا نوٹس لیا جائے جنہوں نے دوسرے سرکاری ملازمین کو بھی دھونس دھمکی سے اس میں شامل کرکے بطور جج اپنے عہدے کی پاسداری نہیں کی جبکہ ان کی من مانیاں پہلے سے جاری ہیں جن میں اختیارات کا غلط استعمال اور شاہانہ طرززندگی اپنانا شامل ہیں۔ پیر کے روز سینئر وکلاء عبدالولی خان عابد، صاحب نادر، ساجد اللہ، وقاص احمد، کو ثر،ساجدظفر اور دیگر کی معیت میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے چترال کے حوالے سے کہاکہ چترال میں ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرز کی فوج ظفر موج کی کوئی ضرورت نہیں ہے جن کی کارکردگی صفر کے برابرہے جبکہ سرکاری وسائل کو ذاتی عیاشی کے لئے استعمال کرتے ہوئے خرانے پر بوجھ بن چکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وکلاء برادری نے اسسٹنٹ کمشنر اور ایڈیشنل اے سیز کی بطور ایگزیکٹیو مجسٹریٹ حیثیت کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور ا س کیس کا فیصلہ ہونے تک وکلاء برادری نے کسی بھی ایگزیکٹو مجسٹرٹی کے سامنے فوجداری مقدمات میں پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ان افسران کا کام لیویز کے جوانوں کے ذریعے اپنے آپ کو پہرے دلواکر عوام پر دھونس اور رعب جمانا ہے اور vigoجیسی قیمتی گاڑیوں میں پھرنا اور دکانداروں کا جینا حرام کرنا ہے اور روزانہ 35لٹر سے ذیادہ پٹرول اور ڈیزل استعمال کرتے ہیں۔ وکلاء برادری کے رہنماؤں نے کہا کہ ان افسران کو اپنے اختیارات کا بھی درست معلوم نہیں ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بازاروں میں دکانداروں کو پانچ ہزارروپے جرمانہ کرکے رسید میں صرف پانچ سو درج کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ ہم اپنے ٹیکسوں پر ایسی عیاشی کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتے اور آج سے ہم نے منظم طور پر ان کے خلاف میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ پبلک سرونٹ کی حیثیت سے رہیں نہ کہ ان کے آقا کا روپ دھار کر ان پر راج کرنا کرتے رہیں۔ انہوں نے چترال کے عوام پر بھی زور دیاکہ وہ ان کو غیر ضروری اہمیت دینا بندکریں جبکہ وکلاء نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ جو بھی سرکاری ملازم کسی ڈی سی، اے سی یا اے اے سی کو پشاور سے آنے پر ان کے گلے میں ہار ڈال کر ان کا استقبال کیا تو ایسے افراد کے خلاف بھی کاروائی کریں گے کیونکہ ان کو غیر ضروری اہمیت دینے سے ان کا مزاج بگڑ جاتا ہے۔ انہوں نے پشاور میں وکیل پر تشدد کی شدید مذمت کی۔