داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ۔۔۔۔مسجد کو عزت دو
حکومت نے خیبر پختونخوا کے 18اضلا ع میں بلدیا تی انتخا بات کے دوسرے مر حلے کے لئے مسا جد میں سیا سی تقریروں کے ذریعے ووٹ مانگنے پر پا بندی لگا ئی ہے متعقلہ حلقوں کے الیکشن کمشنروں نے جو حکمنا مہ جا ری کیا ہے اس کی رو سے مسجد میں ووٹ ما نگنے والے کو 3سال قید اور ایک لا کھ روپے جر ما نہ کی سزا ہو گی یا دونوں سزائیں دی جائینگی یہ مشکل فیصلہ اور مشکل حکم ہے اس کا سیدھا سادہ عنوان ہے ”مسجد کو عزت دو“ اس پر قانون کی روح کے مطا بق عمل کرانا ممکن نظر نہیں آتا، ووٹروں کو گھیر نے، اپنی تقریر سنا نے اور ووٹ ما نگنے کے لئے مسجد کو سب سے زیا دہ منا سب اور محفوظ جگہ سمجھا جا تا ہے میں نے بڑے پا یے کے دو مقرریں کو مسجد میں سیا سی تقریر سے انکا ر کرتے ہوئے دیکھا ہے 1996ء میں عام انتخا بات کی مہم تھی بے مثل خطیب مو لا نا عبد الحمید بلبل چترال قو می اسمبلی کے لئے اُمیدوار تھے جمعہ کے وقت جا مع مسجد بو نی میں 4ہزار نما زیوں کا مجمع تھا قا ضی فضل الرحمن صاحب نے مو لا نا کو بیان کی دعوت دی ایک گھنٹہ بیان میں رمضا ن المبارک اور روزہ کے مسا ئل بیان کر کے سامعین کو چار بار رلا یا دوبار ہنسا یا، ووٹ اور الیکشن کا ذکر نہیں کیا نما ز کے بعد کسی نے پو چھا مو لا نا صاحب آپ نے ووٹ کا نا م کیوں نہیں لیا؟ مو لا نا بو لے اس کے لئے الگ میدان مقرر ہے 3بجے وہاں جلسہ ہو گا وہاں ووٹ کی بات ہو گی 2013ء کی انتخا بی مہم میں سید سردار حسین صو بائی اسمبلی کے اُمید وار تھے عصر کا وقت تھا وہ مسجد میں آئے پہلی صف میں بیٹھ کر نماز پڑھی، دعا کے بعد خا مو شی سے با ہر نکلے جو تے پہننے کے بعد لو گوں کو جمع کیا اور مسجد سے با ہر آدھ گھنٹہ فصیح و بلیغ تقریر کر کے آخر میں کہا میں ووٹ ما نگنے آیا ہوں میں نے مو لا نا اکبر درس اور مو لا نا احتشا م الحق تھا نوی جیسے جید علما ء سے سنا ہے کہ مسجد میں سوال کر نا حرام ہے، میں ووٹ مانگنے کو بھی سوال سمجھتا ہوں اور مسجد کی عزت کا خیال کر کے مسجد کے اندر ووٹ ما نگنے کو حرام سمجھتا ہوں اس لئے مسجد سے با ہر آکر آپ کو زحمت دی! میں سوالی ہوں اور ووٹ کا سوال ہے ایسی بے شما ر مثا لیں اور بھی ہو نگی جن میں سیا ستدانوں نے ووٹ کے لئے مسجد کو استعمال کرنے سے انکار کیا ہو گا مگر ایسی مثا لوں کو نا در اور شاذ کے درجے میں شما ر کیا جا تا ہے عمو می حا ل یہ ہے کہ مسا جد میں دھڑا دھڑ انتخا بی مہم چلتی ہے سیا ستدان ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کے لئے مسا جد کو بے دریغ استعمال کرتے ہیں ہمارے دوست مر حوم معظم خان دبنگ شخصیت کے ما لک تھے ان کی مسجد میں ظہر کی نما ز کے لئے ایک عا لم آئے انہوں نے مخا لف پارٹی کے عالم پر 10الزا مات لگا ئے پھر اپنے لئے ووٹ مانگا، عصر کے وقت دوسری پارٹی کے عالم آئے انہوں نے 10الزا مات کا جواب دینے کے بعد مخا لف پر 12نئے الزا مات لگائے اور اپنے لئے ووٹ مانگا تو معظم خان سے رہا نہ گیا انہوں نے نما زیوں کو مخا طب کر کے کہا آج دو علما ئے دین ہماری مسجد میں آئے دونوں ہمارے مذہبی پیشوا ہیں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا دونوں نے ایک دوسرے پر جو الزامات لگا ئے وہ سو فیصد درست ہیں ہم دنوں کو ووٹ نہیں دینگے، مہینہ یا ڈیڑھ مہینہ کی انتخا بی مہم میں مسا جد کو سیا سی پہلوانوں کا اکھا ڑہ بنا یا جا تا تھا اور نما زیوں کو مفت کے سامعین بنا کر الٹی سیدھی باتیں ان کے ذہنوں میں ٹھو نسی جا تی تھیں الیکشن کمیشن کا فیصلہ بروقت، بر محل اور درست فیصلہ ہے تما م سیا سی جما عتوں کو مسا جد کے تقدس کی خا طر اس فیصلے کا خیر مقدم کرنا چا ہئیے اور اپنی سیا ست کو مسا جد سے دور رکھنا چا ہئیے تا کہ عبادت کی جگہ سیا سی آلا ئشوں سے آلو دہ نہ ہو اور مسجد کی عزت اپنی جگہ قائم رہے عرب مما لک کے اندر مسجد میں گمشدہ چیزوں کا اعلان بھی ممنو ع ہے مسجد میں کسی مسجد یا مدرسہ کے لئے چندہ مانگنا بھی جرم ہے چنا نچہ وہاں مسجد کو عزت دی جا تی ہے۔