داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔مُشیر اور ما ہرین
آج کل دنیا کا نصف سے زیا دہ کا م مشیراور ما ہرین کے حوالے کیا گیا ہے انگریز ی میں مشیر یا ما ہرین کے لئے کنسلٹنٹ کا جا مع اور با معنی لفظ استعمال ہو تا ہے عالمی ادارے، قو می حکومتیں اور بڑی بڑی تجارتی کمپنیاں مشیروں اور ما ہرین کی اراء پر انحصار کر تی ہیں کوئی بھی اہم مسئلہ درپیش ہو اس کا اہتما م و انتظام مشیر یا ما ہرین کے حوا لے کیا جا تا ہے، خصو صاً غریب، غیر ترقی یا فتہ،آفت زدہ اور جنگ کی تبا ہ کاریوں کا شکار ہونے والے مما لک میں مُشیروں کی فو ج ظفر مو ج ڈیرے ڈال دیتی ہے ان کے مشورے بہت مہنگے ہو تے60صفحات کی ایک رپورٹ اگر مقا می مشیر تحریر کر ے تو اس کو ایک ہزار ڈالر ملتے ہیں یہی رپورٹ اگر غیر ملکی مشیر لکھے تو اس کو 20ہزار ڈالر ادا کئے جا تے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان رپورٹوں کو ہر کوئی پڑ ھتا ہے ہر کوئی ان پر عمل کرتا ہے اس کے مضمرات اور نتا ئج کا جا ئزہ لینے کے لئے پھر مشیر کا تقرر ہو تا ہے اس مشیر کی سفارشات کو عملی جا مہ پہنا نے کے لئے پھر ایک مشیر کی خد مات حا صل کی جا تی ہیں العرض مشیر ایک کمبل ہے جس کو آپ چھوڑ بھی دیں مگر کمبل آپ کو نہیں چھوڑ تا سما جی شعبے کی ترقی سے وا بستہ ما ہرین کے ہاں ایک مقولہ مشہور ہے وہ کہتے ہیں کہ مشیر و ہ شخص ہے جو آپ کی گھڑی دیکھ کر آپ کو وقت بتا تا ہے اور معاوضہ کے طور پر آپ کی گھڑی ہتھیا لیتا ہے عراق، شام، صو ما لیہ، سوڈان، یمن اور افغا نستا ن میں مشیروں نے بڑا پیسہ کما یا وطن عزیز پا کستان بھی مشیروں کے لئے بہت زرخیز ملک ہے گزشتہ 30سالوں سے ہمارے ہاں نجکا ری کا دَور چل رہا ہے اس عمل میں ہزاروں مشیروں نے اربوں ڈالر وصول کئیے، لاکھوں صفحا ت پر مشتمل رپورٹیں جمع کی گئیں ان رپورٹوں کا جا ئزہ لینے کے لئے مزید مشیروں کا تقرر ہوا 800کے قریب قومی اثا ثوں کو نجی ملکیت میں دینے کی سفارشات تیار کی گئیں مگر پا کستان ٹیلی کمیو نی کیشن لمیٹڈ کے سوا کسی بھی قو می اثا ثے کی نجکا ری نہیں ہو ئی ایک ستم ظریف نے نجکا ری کمیشن کو رپورٹوں کا قبرستان قرار دیا ہے اس کے باوجو د دھڑا دھڑ مشیروں کی تقرری ہو رہی ہے کا لا باغ ڈیم کے بارے میں سب کو پتہ ہے کہ کیا تھا اور کیا ہوا؟ مگر یہ بات بہت کم لو گ جا نتے ہیں کہ ڈیم پر ایک پا ئی خر چ نہیں ہو ئی ڈیم کے سروے، ڈیزائن اور رپورٹوں کے لئے مشیروں کو ار بوں کے حساب سے ڈالروں میں معا وضے ادا کئے گئے کنسلٹنٹ کا معا وضہ ہمارے لئے ”نیکی کر دیا میں ڈال“ کے زمرے میں آتا ہے ہم اس کا معا وضہ نہ روک سکتے ہیں نہ واپس لے سکتے ہیں مشیر، ما ہریا کنسلٹنٹ بننے کا اہل کون ہوتا ہے؟ یہ سو ملین ڈالر کا سوال ہے، کنسلٹنٹ وہ مخلوق ہے جس کو کسی بھی شعبے میں اچھا کام نہیں ملا یا وہ کسی بھی بھی شعبے میں جم کر کا م ہی نہیں کر سکا اس کو بین لاقوامی تنظیمیں مشیر کے طور پر اپنے پرو گرام میں شامل کر کے بھاری معا وضہ ادا کر تی ہیں وہ گھوم پھر کر چند الٹے سیدھے سوالات کے جوا بات ڈھونڈ نکا لتا ہے اور ان جوابات کو رپورٹ کی شکل دے کر جمع کر کے اپنا معا وضہ وصول کرتا ہے کہتے ہیں ایک چرواہا اپنی بھیڑوں کے ریوڑ کے ساتھ پہا ڑی چراگا ہ سے آرہا تھا ایک آدمی نے جیب روک کر چرواہے سے کہا اگر میں تمہا ری بھیڑوں کو دیکھ کر بتادوں کہ کتنے بیمار اور کتنے تندرست ہیں تو مجھے کیا دو گے؟ چرواہے نے کہا ایک بھیڑ دے دونگا تھوڑی دیر بعد وہ شخص حساب کر کے آیا اور کہا ایک بھیڑ دے دو، چرواہے نے کہا خود لے لو، اُس شخص نے ایک جا نور کو پکڑا اور جیب میں ڈال کر جا نے لگا تو چرواہے نے پو چھا کیا تم کنسلٹنٹ ہو اُس نے کہا ہاں مگر تمہیں کیسے پتہ چلا، چرواہے نے کہا جو جا نور تم نے اٹھا یا وہ کتا ہے اس واقعے سے کنسلٹنٹ کی قا بلیت کا پتہ چلتا ہے فارغ بخا ری نے سچ کہا ہے ؎
امیر شہر کا سکہ ہے کھو ٹا
مگر شہر میں چلتا بہت ہے