داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔مستقبل کی ایک جھلک
مستقبل یا آنے والے کل کو دنیا کے تر قی یا فتہ ملکوں میں با قاعدہ تحقیق اور تدریس کا مضمون بنا یا گیا ہے، جب مزدور وں کی ضرورت نہیں رہے گی جب پا نی کی شدید قلت ہو گی، جب بچے الگ ہونگے ماں باپ الگ ہونگے، جب بہن بھا ئی ایک دوسرے کو نہیں پہنچا نینگے، جب تعلیم یا فتہ لو گ قلم کا غذ لیکر خط یا رسید نہیں لکھ سکینگے اس کا آغا ز ہمارے جیتے جی ہو چکا ہے نصف صدی پہلے ان پڑ ھ اور نا خوا ندہ لو گ کا غذ پر دستخط نہیں کر سکتے تھے ان کی انگلی کا نشا ن کا غذ پر لگا یا جا تا تھا جس کو ”انگوٹھا چھا پ“ کہتے تھے آج کل ڈاکٹر، وکیل، انجینئر اور پرو فیسر کا بینک میں کوئی ضرور ی کا م ہو تو اس کا دستخط نہیں دیکھا جا تا اس کا ”انگو ٹھا چھا پ“ دیکھا جا تا ہے جو ہمارے بچپن میں نا خواندہ ہونے کی نشا نی ہو تی تھی کسی شاعر کا مصر عہ ہے ”دوڑ پیچھے کی جا نب اے گردش ایام تو“ مستقبل کی طرف نظر دوڑا ئیں تو مشترکہ خا ندانی نظام کا خا تمہ ایک حقیقت کی طرح سا منے آتا ہے یہ بھی نظر آتا ہے کہ آنے والا دور خا ندان کی جگہ فرد اور کنبے کی جگہ شخصی شنا خت کا دور ہو گا جس کنبے میں نصف صدی پہلے 60افراد ایک مشترکہ گھر میں رہتے تھے آج وہ کنبہ 20الگ الگ گھروں میں بٹ چکا ہے آنے والے دور میں آج کے 20کنبوں کو مزید تقسیم کے عمل سے گذارا جا ئے گا فلمی گیت کا مصرعہ ہے ”ایک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا“ کوہستان، بٹگرام، میران شاہ یا چترال کا ایک کنبہ 100ٹکڑوں میں تقسیم ہوگاکوئی امریکہ، کوئی بر طا نیہ، کوئی سنگا پور، کوئی ملا ئشیا، کوئی جا پا ن، کوئی چین اور کوئی روس میں جا بسے گا بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی پوری دنیا میں پھیل جا ئینگی پا کستان کے مختلف شہروں میں رہنے والے بہن بھا ئی 10سالوں میں بھی ایک دوسرے سے نہیں مل پا ئینگے، امریکہ، کینڈا، جا پا ن اور روس کے مختلف شہروں میں بسنے والے بہن بھا ئی عمر بھر نہیں مل سکینگے، ما ں باپ کی زند گی میں ملا قات نہیں ہو گی مر نے کے بعد قبر کی زیا رت کا خیال کسی کو نہیں ہو گاآج ہمارے بچے بچیاں یا پو تے پو تیاں، نواسے نواسیاں قلم اور کا غذ سے دور ہو تی جا رہی ہیں مستقبل میں کا لج اور یو نیور سٹی میں پڑھنے والے نو جواں اور نو نہال خط لکھنے سے معذور ی کا اظہار کرینگے، ایک ہا ئی سکول کے نئے ہیڈ ما سٹر نے تین مہینوں تک ایک مخصوص کمرہ جما عت سے آنے والی چھٹی کی درخواستوں کا جا ئزہ لیا ایک ہی لڑ کا سب کے لئے درخواست لکھ رہا تھا اُس نے تفتیش کی تو معلوم ہوا دوسرے لڑ کے نہیں لکھ سکتے یہ لڑ کا دینی مدرسہ سے آیا ہے وہاں افغا ن مہا جر استاد ہے وہ بچوں کو خوش خطی کی تعلیم دیتا ہے خط، درخواست اور مضمون لکھنے کی مشق کراتا ہے اس وجہ سے یہ لڑ کا درخواست لکھتا ہے مستقبل میں بچوں کا سارا کا م کمپیوٹر پر ہو گا، ہاتھ سے کوئی طا لب علم اپنا نا م یا اپنے باپ کا نا م نہیں لکھ سکیگا امتحا نا ت کا ایک نظا م آیا ہے جس میں طا لب علم دائرے کا نشا ن لگا کر ہر سوال کا جواب دیتا ہے، اپنے نا م کی جگہ کوئی ہندسہ لکھتا ہے یا چند ہندسے لکھتا ہے آگے کچھ نہیں لکھتا اور پا س ہو جا تا ہے ایسے امتحا نا ت بھی آگئے ہیں کہ طا لب علم کمپیو ٹر پر آن لا ئن سوالوں کے جواب دیتا جا تا ہے ایک مقام پر پہنچ کر کمپیو ٹر کہتا ہے ”سوری“ اور بند ہو جا تا ہے گو یا طا لب علم فیل ہو گیا مستقبل کا منظر نا مہ ایسا ہی ہے اب ہمیں اس منظر نا مے کو قبول کرنا ہے۔