دادبیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔تر بیتی اداروں کا موازنہ
ایک تر بیتی ادارے میں 8سال گذار کر ڈگری لینے والا نو جوان کسی بھی مو ضو ع پر ایک گھنٹہ فصیح و بلیغ تقریر کر سکتا ہے، اس کے مقا بلے میں دوسرے تر بیتی ادارے میں 16سال تر بیت حا صل کرنے والے گریجویٹ سے اس کے پسندیدہ مو ضوع پر 5منٹ اظہار خیال کرنے کا مطا لبہ کیا جا ئے تو وہ پسینہ پسینہ ہو جا تا ہے دو جملے نہیں بول سکتا اس کی وجہ کیا ہے اگر دونوں اداروں کا موازنہ کیا جا ئے تو معلوم ہو تا ہے کہ 8سالوں میں زیر تر بیت نو جوان فرفر بولنے کے قابل بنا نے والا ادارہ اپنے نظم و نسق میں گفتگو، سوال و جواب، شراکت داری اور افہام و تفہیم کی بنیا د پر نو جوانوں کی تر بیت کرتا ہے جس تربیتی ادارے کا فارغ التحصیل ڈگر ی لینے کے باو جو د 2منٹ کسی مو ضوع پر اظہار خیال کرنے کی لیا قت اور استطا عت نہیں رکھتا وہ ادارہ اپنے طالب علموں کو رٹہ لگا نے اور نقل کے ذریعے امتحا ن پا س کرنے کی تربیت دیتا ہے یہ دو متضاد رویے اور متضاد طریقہ ہائے تربیت ہیں ایک ادارے میں خلا ئی تحقیق زیر بحث آتا ہے اس پر گفتگو ہوتی ہے تو استاد اپنے شا گردوں کو پورا وقت دیتا ہے ان کی باتوں کو سنتا ہے ان کے مطا لعے اور مشا ہدے کو داد دیتا ہے اور پھر ان کی گفتگو پر اپنی رائے دیکر بحث کو سمیٹتا ہے یہ عمل کسی بھی مو ضوع پر ہرروز ہر کلا س میں دہرا یا جا تا ہے اگر کلا س میں 30طلبہ مو جو د ہیں تو ہر ہفتے ان میں سے 15طلبہ کو کلا س میں کھڑے ہو کر اپنی رائے دینے کا مو قع ملتا ہے ہر طالب علم کو مہینے میں دوبار اظہار خیال کا مو قع ملتا ہے اس کو انگریزی میں پریزینٹیشن کہتے ہیں اس کے لئے طالب علم محنت کرتا ہے، تحقیق کرتا ہے، مطا لعہ کرتا ہے اور ہر ہفتے اپنی پریزینٹیشن کو پچھلے ہفتے سے بہتر بنا نے پر تو جہ دیتا ہے وطن عزیز پا کستان میں اکسفورڈ، کیمبرج اور آغا خان یو نیورسٹی ایجو کیشن بورڈ سے منسلک تر بیتی اداروں میں یہ طریقہ کار اپنا یا جا تا ہے قارئین کے لئے حیرت کی بات ہو گی لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہمارے مذہبی تربیت اور دینی تربیت کے تما ادارے انہی خطوط پر نو جوا نوں کی تربیت کر تے ہیں چوتھے سال کا طالب علم کلا س میں کھڑے ہو کر کسی مو ضوع پر اظہار خیال کر تا ہے اور اس میں جھجک محسوس نہیں کرتا وہ اپنی تقریر میں دلا ئل سے کا م لیتا ہے قرآن و حدیث اور آثار صحا بہ یا اذ کار اولیاء سے مثالیں دیتا ہے مو ضوع پر سوالوں کے جواب دیتا ہے اور سوال کرنے والوں کو مطمئن کرتا ہے اس کے مقابلے میں کسی سر کاری ادارے میں 14سال یا 16سال تک پڑھنے والا طالب علم کلا س کے سامنے آکر دو جملے نہیں بول سکتا اُس کو کبھی کلا س میں بات کرنے کا مو قع ہی نہیں ملا اُس کو سوچنے،مطالعہ کرنے، تحقیق کرنے کی تر بیت نہیں دی جا تی اُس کو صبح و شام یہی درس دیا جا تا ہے کہ 200صفحے کی نصا بی کتاب کو زبانی یاد کرو اور امتحان پا س کرنے کے قابل بن جا ؤ اُس کو یہ نہیں بتا یا جا تا کہ تمہیں مو ضوع پر عبور حا صل کرنا ہے مو ضوع کے مثبت اور منفی پہلو پر بحث کر نے کی استعداد حا صل کرنے کی ضرورت ہے اس مو ضوع پر دو چار مصنفین کی اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کی ضرورت ہے اگر نصاب کی کتاب میں صلح حدیبیہ کا 4صفحوں پر مشتمل سبق آیا ہے تو طالب علم کو تاریخ اسلا م کی کم ازکم تین کتا بوں میں صلح حدیبیہ کا پورا باب پڑھنے کی رہنما ئی کوئی نہیں کر تا اس وجہ سے ہمارے تر بیتی اداروں سے طوطے فارغ التحصیل ہو تے ہیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے قومی دھا رے کے تمام تر بیتی ادارے، دالعلوم کراچی، جا معہ اشرافیہ لا ہور، جا معہ حقانیہ اکوڑہ خٹک، ایف سی کا لج لا ہور اور آغا خا ن سکول گلگت کی طرح زیر تربیت نو جوا نوں کو سوال و جواب، اظہار خیال، تحقیق، مطا لعہ اور غور و فکرکی تربیت دے کر کار آمد اور مفید گریجو یٹ پیدا کریں تو ہمیں رٹہ بازی کا پورا کلچر ختم کر کے تعلیمی اور تر بیتی اداروں میں سوالو جوا ب، مطا لعہ اور تحقیق کے طریقے پر تدریس و تربیت کا نظام لانا ہو گا اور یہ مشکل نہیں۔