دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔ایک سابق کونسلر سے آدھی ملاقات”
وطن جنت نذیر میں پھر بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی ہے۔۔۔نمائندے سامنے آگیے ہیں۔ووٹ مانگ رہے ہیں۔اپنے آپ کو دودھ کا دھلا کرکے پیش کر رہے ہیں۔کچھ دعوے شاعوے ہیں کہ ہم خدمت کریں گے۔عوام ہے کہ وہ بھی ماضی بھلانے کی عادی ہیں۔ان کو کچھ یاد نہیں پڑتا۔قصور ان کا بھی نہیں ہے کیونکہ ان کو کبھی کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔انتخابات کے بعد بھی زندگی وہی کے وہی ہے۔کوئی مسلہ حل نہیں ہوتا۔تبدیلی ترقی نام کی کوئی چیز دیکھنے کو نہیں ملتی۔ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ کون کیا ہے اور نہ کسی کا تعارف ہوتا ہے اس لیے عوام الیکشن کی سرگرمیوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے بس دو چار دن موضوع بحث ہو تا ہے کہ الیکشن ہے پھر سب کچھ نارمل ہو جاتا ہے۔۔کچھ دن پہلے سر راہے ایک کونسلر سے ملاقات ہوئی اس نے سلام میں بھی پہل کی تپاک سے ملا۔گھر تک کی خیر خیریت پوچھا پہلی بار معلوم ہوا کہ میری گھر والی اس کی بہن ہے میرے بچے اس کے بھتیجے اور بھتیجیاں ہیں۔میں نے ہاں ہوں کیا تو اس نے مدعا بیان کی۔۔بھائی میں بلدیاتی الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔میں نے کہا بھائی ٹھیک ہے۔میں نے عرض کیا کہ بھائی جہان تک میری یادداشت ساتھ دیتی ہے آپ پہلے بھی کونسلر تھے۔۔جی جی! میں کونسلر تھا اب پھر سے خدمت کا ارادہ ہے۔
میں نے کہا۔۔۔بالکل لیکن کارکردگی اتنی اچھی نہیں رہتی۔اتنے میں وہ جلال میں آگیا۔یار عجیب لوگ ہو اس ملک میں کو کب تیر مارتا ہے۔ملک بنا ایک ادھ سال میں بابائے قوم انتقال کر گئے۔۔چند سال افرا تفری کے تھے پھر ڈیکٹیٹرشپ آگئی۔ادارے بے بال و پر ہوگیے جمہوریت کی ٹانگیں توڑ دی گیں۔یارا سال ایوب خان کا رہا۔پھر ٹنشن آگئی 65 ء کی جنگ نے ہمیں مفلوج کر دیا تھا۔آگے بنگال گیا غاصبوں نے جمہوریت پنپنے نہ دیا بھٹو کے چند سال تھے۔پھر ڈیکٹیٹر آگیا۔۔جمہوریت بے موت مری۔۔پھر مطلق العنان آگیا۔یہ ایک سلسلہ ہے۔انہوں نے ایک ہی سانس میں سب کچھ بتا دیا۔۔میں نے عرض کیا صاحب ضیاء تک کا دور میرے شعور سے پہلے کا ہے آگے میرے سامنے کے دور ہیں۔جمہوریت رحمت ہے لیکن کیا ہمارے لیے بھی یہ رحمت رہی ہے۔کیا ہم بھی اس کے ثمرات سے مستفیض یوتے رہے ہیں۔بھٹو کے دور میں پہلی مہنگائی آئی۔۔اس کی تقریر رکارڈ پر ہے۔ضیاء الحق کے دور میں کسی نے بے چینی مہنگائی کا رونا نہیں رویا۔بینظیر اور نواز صاحب کے دور میں ہم نے یہ لفظ ”قرض ”۔۔۔” لون ” وغیرہ سنا اور سکتے میں اگیے۔پھر جمہوریتوں میں ورلڈ بنک آئی ایم ایف وغیرہ نام سنے۔پھر مہنگائی کا طوفان،بدعنوانی کی آندھی، بے روزگاری کا سیل روان۔۔پھر معاشرے میں بے چینی۔جان کے لالے، عزت کاخوف،،تحفظ کی فکر، انصاف کی دھائی۔۔۔محترم آپ ذرا اس جمہوریت کے ثمرات تو گن کے دیکھاوں۔۔عرض گزار ہوں کہ تم نے وہ پچھلے ٹرم میں کیا کچھ کر دیکھایا۔۔کسی فنًڈ شنڈ کا ذکرہو۔۔آپ پر اعتماد کس بنیاد پر ہو۔۔انہوں نے مسکرا کر کہا۔۔یہ تو قوم کو بھی پتہ ہے۔۔کہ میری کارکردگی کیا ہوگی اور کیا رہی ہے۔یہ ایک نشہ ہے بھائی۔۔۔میں نے عرض کیا چچا نمائندگی نشہ ہے کہ خدمت۔۔۔انہوں نے کہا۔۔۔بیٹا! نمائندگی۔۔۔