داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔شہر گر دی
پشاور شہر کو ہر شخص اپنے زاویے سے دیکھتا ہے کسی کوپشاورکے پیشے نظر آتے ہیں کسی کو دریا ئے باڑو کے کنا رے صفائی والی کہا نیاں یا د آتی ہیں کسی کو شہر کے قدیم دروازے یا د آتے ہیں کسی کو آتہیں دال گراں بٹیر بازاں،نعل بندی وغیرہ نا موں سے مو سوم تاریخی محلے نظر آتے ہیں، کسی کو تالاب، نوشو با با اور طورہ قل بائے جیسے نا مو ں کی مساجد نظر آتی ہیں کوئی کہتا ہے پشاور قلعہ بالا حصار اور مسجد مہابت خان کا نا م ہے میں نے پشاور میں ایسی شخصیت کو دیکھا ہے جو پشاور کو بے نا م اور بے چہرہ لو گوں کے زاویے سے دیکھتا تھا خاجی معراج الدین سول سروس کے صو فی افیسر تھے اتورا کے دن فارغ ہو تے تو کہتے آؤ ”شہر گردی“ کریں انکی اپنی اصلا حات اور ترا کیب ہو تی تھیں اپنے دوستوں کے گروپ کو ”سلسلہ، خوراکیہ“ کہتے تھے، بے روز گار نو جوا نوں کو ”انا ج دشمن عنا صر“کا نا م دیتے تھے شہر گردی کے لئے ان کو ایک ہم خیال دوست کی ضرورت ہو تی تھی اور میری خو ش قسمتی یہ تھی کہ وہ مجھے شہر گردی میں ہمر کا بی کے قابل سمجھتے تھے ہمر کا بی کے اداب میں سے ایک ادب یہ تھا کہ ان سے کوئی بات پوچھی نہ جا ئے جو کچھ وہ بتا ئیں اس کو غور سے سن لیا جا ئے اور سرہلا نے کا فریضہ انجا م دیا جا ئے شہر گر دی میں موٹر کا استعمال منع تھا پیدل چلنے کو وہ گیارہ نمبر کی مو ٹر کار کہتے تھے ہم پیدل نکلتے تو کبھی ہشتنگری سے داخل ہو کر گنج در وازے پر پہنچ جا تے کبھی کا بلی سے داخل ہو کر نمک منڈی سے ہوتے ہوئے رام داس تک گلیوں کی خا ک چھا نتے کبھی پیپل منڈی سے داخل ہو کر ڈبگری تک تنگ گلیوں سے گزر نے کا لطف اٹھا تے ان میں ایک گلی چمڑے کے تا جروں کی تھی معراج صاحب کا گو ہر مقصود اس گلی میں بھی ملتا تھا ان گلیوں کی خا ک چھاننا بے مقصد نہیں تھا شہر میں چند بے نا م اور بے چہرہ لو گ تھے جن کے بارے میں اُن کا پختہ یقین تھا کہ شہر پر حکمرانی کسی سیا ستدان یا افیسر کی نہیں بلکہ ان بے نا م، بے چہرہ لو گوں کی حکمرانی ہے چلتے چلتے ایک مو چی کے پا س رک جا تے سلا م کر کے خیریت دریا فت کر تے تھوڑی دیر زمین پر ان کے پا س بیٹھتے مو سم پر گفتگو کر تے ایک لفا فہ ان کے ہاتھ میں تھما دیتے اور اجا زت لے لیتے تھوڑی دیر چلنے کے بعد رک جا تے اور کہتے یہ مو چی برگزیدہ ہستیوں میں سے ہے اس نے جو کہا کہ اچھا مو سم آنے والا ہے اس سے مراد عالم اسلا م کا غلبہ ہے آگے کسی تنگ گلی میں ایک ٹھیلے والے کے پا س رک جاتے کوئی پھل خرید لیتے بڑا نوٹ دیکر ریز گاری واپس نہ لیتے پھل بھی گلی میں کھیلنے والے بچوں میں بانٹ دیتے تھوڑی دور جا کر ٹھیلے والے کے بارے میں خبر دیتے کہ ان کا در جہ متصرف اور ولی کے درمیان ہے شب جمعہ کو پیران پیر کی زیا رت ہوتی ہے اگلے ہفتے کے لئے احکا مات ملتے ہیں، چلتے چلتے ایک دھو بی کی دکا ن پر سستا نے کے لئے ٹھہر جا تے ٹو ٹے بنچ پر بھیٹتے دھو بی کے شاگرد کو پیسے دیکر مٹھا ئی لا نے کے لئے بھیجدیتے اور دھو بی سے حا لات حا ضرہ پر گفتگو کر تے مٹھا ئی لا نے والے سے ریز گاری واپس نہ لیتے مٹھا ئی دھو بی کو دیدیتے اور با ہر نکل کر مجھے بتا تے کہ اس کے ذمے شہریوں کی حفاظت ہے یہ روحا نی سلسلے کا کوتوال ہے اس نے جن خبروں کا حوالہ دیا ان سے مراد عالم بالا کی خبریں تھیں اس طرح شہر بھر میں دس بارہ بے چہرہ، بے نا م لو گ تھے جن کو وہ خد ارسیدہ ولی مانتے تھے شہر گردی میں ایسے ایسے واقعات کے اشارے ملتے تھے جن کو سال دو سال بعد ہم نے میڈیا پردیکھنا اور سننا تھا یہ لو گ آج بھی شہر میں مو جود ہیں ان کو پہچا ننے والے آج بھی پہچانتے ہیں مگر ہم نے شہر گردی کرانے والا رہبر کھو دیا ہے۔