داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔پشاور کا گھنٹہ گھر
پشاور اور فیصل اباد کے گھنٹہ گھروں کو ملکی سیا ست، صحا فت اور ادب میں خا ص مقا م حا صل ہے 1962ء میں ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا لطیفہ یہ تھا کہ آئین میں صدر کی ذات گرامی کو گھنٹہ گھر کا در جہ دیا گیا ہے جو چاروں طرف نظر آتا ہے پشاور کا گھنٹہ گھر ایسی جگہ پر ایستادہ ہے جو شہر کا دل کہلا تا ہے اس کے ایک طرف تحصیل گورکٹھڑی ہے دوسری طرف محلہ سیٹھیاں کا تاریخی مقا م ہے تیسری طرف چوک یا د گار اور مسجد مہا بت خا ن واقع ہے چوتھے سمت پر قصہ خوانی کا مشہور بازار ہے گھنٹہ گھر سے کریم پورہ کا مشہور بازار شروع ہوتا ہے جو ہشت نگری تک جا تا ہے گھنٹہ گھر آج سے 600سال پہلے وقت دیکھنے اور وقت معلوم کرنے کا واحد ذریعہ تھا پھر گھڑ یوں کا زما نہ آیا گھروں، دکا نوں اور مسجدوں میں گھڑیاں نصب کی گئیں، لو گوں نے جیبی گھڑیوں سے اپنی جیبوں کو سجا یا، کلا ئیوں پر ہاتھوں کی گھڑیاں آگئیں پھر زما نہ بدل گیا، مو با ئل فون آگئے تو جیبوں اور ہاتھوں کی گھڑیاں بھی فراموش کر دی گئیں پشاور کا گھنٹہ گھر اب ریفرنس اور حوالے کے طور پر زبان پر آتا ہے لو گ کہتے ہیں مینا بازار کو گھنٹہ گھر سے راستہ جا تا ہے لو گ بتاتے ہیں کہ ریتی بازار گھنٹہ گھر کے قریب واقع ہے، لوگ کہتے ہیں تازہ مچھلی گھنٹہ گھر میں دستیاب ہے مجھے گھنٹہ گھر کی جو روایت پسند ہے وہ خدا ترسی،فیا ضی،مہمان نوازی اور سخا وت کی روایت ہے گھنٹہ گھر کے تندوروں پر غریبوں، نا داروں، مسافروں، معذوروں، یتیموں اور بیواووں کی قطاریں نظر آتی ہیں ان کو ہر شام گھنٹہ گھر، محلہ سیٹھیاں کریم پورہ ریتی بازار اور موچی لڑہ کے مخیر سوداگر اللہ کے نا م پر روٹیاں تقسیم کرتے ہیں گھنٹہ گھر کا یہ منظر دیکھنے والا ہوتا ہے اور دیکھنے والوں کو مدینہ منورہ کے شہریوں کی فیا ضی یا د آجا تی ہے مجھے پشاور کا گھنٹہ گھر کئی حوالوں سے یا د آتا ہے میرے دوست منورشاہ یہاں رہتے ہیں، میں سات سال چوک یاد گار کی عظمت بلڈنگ میں رہا اور گھنٹہ گھر سے دودھ لے جا کر چائے بنا تا رہا گھنٹہ گھر کا دودھ مجھے رہ رہ کر یا د آتا ہے گو کہ گھنٹہ گھر نزدیک نہیں تھا پھر بھی میں دودھ کے لئے گھنٹہ گھر آجا تا تھا میرے دوست امان اللہ ریتی بازار میں رہتے تھے انہوں نے پہلے دن مجھے گھنٹہ گھر کا راستہ دکھا یا پھر یہ راستہ مجھ سے کبھی نہیں بھولا مجھے مو چی لڑہ کا بازار بھی گھنٹہ گھر کے حوالے سے یا دہے موچی لڑہ کی مسجد میں ہم جمعہ پڑھنے آتے تھے مولا نا پیر محمد چشتی یہاں اوقاف کی مسجد میں جمعہ پڑھا تے تھے نما ز اور دعا کے بعد ہمیں قھوہ پلا تے تھے مولا نا محمد افضل یہاں پنج وقتہ نما زوں کی اما مت کراتے تھے مر نج مرنجاں شخصیت کے ما لک تھے مو چی لڑہ کے اندر جو توں کی دکا نیں تھیں بازار کی پُشت پر قصائیوں کے تھڑوں پر چھوٹے سری پا یے خوب صورت ترتیب سے سجا ئے جا تے تھے شہرکے مشہور وکلا ء ڈاکٹر ز اور پرو فیسر اتوار کے روز بیگمات کے ساتھ اس بازار میں آکر من پسند خریداریوں کا لطف اٹھا تے تھے یہ گلی گھنٹہ گھر کی طرف نکلتی ہے چوک یاد گار اور پیپل منڈی کی طرف سے آنے کا راستہ تنگ ہے پارکنگ کی جگہ نہیں اس لئے لو گ گھنٹہ گھر سے ہو کر آتے تھے اب بھی گھنٹہ گھر کا وہی ہے چلن ہے گھنٹہ رہی ہے ہم ویسے نہیں رہے۔