داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔پرانی سیا ست گری خوار ہے
علا مہ اقبا ل کے کلا م میں ہر مکتب فکر کو اس کے ذوق کا مواد مل جا تا ہے جس طرح ترقی پسند کلا م اقبال سے حوالے دے دے کر اپنی بات منوا نا چاہتے ہیں اس طرح رجعت پسندوں کو بھی کلا م اقبال سے ان کے مطلب کا مواد ہاتھ آجا تا ہے جمہوریت پسند بھی کلا م اقبال کا سہا را لیتے ہیں آمریت پر عقیدہ رکھنے والے بھی کلا م اقبال سے استفادہ کر تے ہیں پا کستان کی مو جو دہ سیا سی صورت حال پر علا مہ اقبال نے کم و بیش 90سال پہلے جو تبصرہ کیا وہ آج کا تجزیہ نگا ر بھی نہیں کر سکتا اور خو بی یہ ہے کہ صرف دو مصرعوں میں معا نی کا سمندر نظر آتا ہے علا مہ اقبال نے کہا تھا ؎
پرانی سیا ست گری خوار ہے
زمین میر وسلطان سے بیزار ہے
2021ء میں پا کستان کے عوام و خواص سیا سی جما عتوں، سیا سی لیڈروں، سیا سی سر گر میوں جلسوں، جلو سوں، ریلیوں اور ہنگا موں سے اکتا ہٹ کا شکار ہو چکے ہیں اس اکتا ہٹ اور بیزا ری کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاعر مشرق کا شعر ہمارے زما نے کے لئے ہے اور کلا سیکی ادب پارہ ایسا ہی ہو تا ہے علا مہ اقبا ل نے قدیم باد شا ہوں کی تاریخ کا گہرا مطا لعہ کیا تھا اقبال کا تصور تاریخ ڈاکٹر راشد حمید کی تحقیق کا مو ضوع رہا ہے اور اس مو ضوع پر ان کی کتا ب حوالے کی کتاب بن چکی ہے باد شاہ کا دربار مخصوص اطوار واداب کے لئے شہرت رکھتا تھا مثلاً باد شاہ کے دربار میں ملک اور قوم کا ذکر نہیں ہوتا تھا باد شاہ، ملکہ معظمہ، ان کے ولی عہد سمیت دیگر شہزادوں کا ذکر ہو تا تھا دربار میں حا ضری دینے والوں میں سے جو درباری باد شاہ کی زیا دہ تعریف کرتا اس کو بڑا عہدہ ملتا تھا اور بڑے عہدے کے لا لچ میں چا لاک درباری باد شاہ کوعقل کل ثا بت کرنے پر زور خطا بت صرف کرتے تھے باد شاہ کو دن رات یہ باور کرایا جا تا تھا کہ اس دنیا میں آپ جیسی شخصیت کوئی نہیں تما م خو بیاں آپ کی ذات میں ہیں شاہی دربار کی دوسری خصو صیت یہ تھی کہ دربار یوں کا ایک اہم کا م تاج و تخت کے دعویداروں کا قلع قمع کرنا تھا، درباری باد شاہ کے کا ن بھر نے کے لئے تاج و تخت کے دعویداروں کے خلا ف قصے کہا نیاں تراش کر لا تے تھے بعض دعویدار وں کو عمر بھر کے لئے زندان میں ڈالتے تھے بعض کو جلا وطن کر تے تھے اور بعض کو قتل کر وادیتے تھے تا کہ باد شا ہ سلا مت کے تاج و تخت پر کوئی دعویٰ داری نہ کر سکے یہ پرا نی سیا ست گری تھی باد شاہ ہوں کے درباروں میں یہی سیا ست چلتی تھی علا مہ اقبال نے اس طرز سیا ست کو ”خوار“ کا نا م دیا میرو سلطان باد شاہ ہت کے دو استعارے ہیں مو جودہ دور کو جمہوری دور کہا جا تا ہے شا ید ہو گا، امریکہ، بر طا نیہ، فرانس، جر منی وغیرہ میں جمہوری دور ہو گا تیسری دنیا کے مما لک میں جمہوری دور ہم نے بہت کم دیکھا ہے بلکہ جمہوری لباس میں باد شا ہت دیکھی ہے ہر سیا سی جما عت کا سر براہ باد شاہ ہو تا ہے وہ اپنا دربار لگا تا ہے اُس کے دربار میں مکھن پا لش کا دور چلتا ہے مکھن پا لش میں جو بازی لے جا ئے وہ مقرب ہوتا ہے ہر جما عت کا لیڈر تاج و تخت کے دعویداروں کی سر کو بی کر تا ہے اور درباری اس غم میں غلطاں ہو تے ہیں کہ لیڈر کے بد خوا ہوں اور دشمنوں سے کب اور کہاں دو دو ہاتھ کریں یہاں بھی باد شاہ کے دربار کی طرح ملک اور قوم کا ذکر نہیں ہو تا اس لئے 1956ء میں باد شاہ اور دربار یوں کے جو بیا نات تھے وہ 2021میں بھی نہیں بدلے اس لئے عوام اور خواص بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں گویا ”پرانی سیا ست گری خوار ہے“