داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔معدوم ہونے والی زبان
اخبارات میں سوات کی تحصیل بحرین کے تاریخی گاوں مغل مار سے ایک صحا فی کی تحقیقا تی رپورٹ آئی ہے رپورٹ میں ہند آر یا ئی زبان بدیشی کی معدومیت کا ذکر ہے تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2021ء میں بدیشی زبان کے بولنے والے تین افراد زندہ ہیں جنکی عمریں 20اور 60سال کے درمیاں بتائی جا تی ہیں اخبارات میں جو تصویر یں آئی ہیں ان میں محبت خا ن سفید ریش ہیں ایک بزرگ کی داڑھی سیا ہ ہے نو جوان کلین شیو نظر آ رہا ہے علا قے کی مغزز شخصیت مو لا نا شعیب نے صحا فی کو بتا یا کہ بدیشی ہزار ہا سا لوں سے یہاں بو لی جا تی تھی قرب جوار میں تور والی، گاوری اور پشتو زبا نیں بو لی جا تی ہیں اس وقت بدیشی بولنے والوں کی آبادی 4ہزار سے اوپر ہے مگر 40گھرانوں میں سے صرف تین گھرا نوں کے اندر تین افراد ایسے ہیں جو آپس میں بدیشی بولتے ہیں باتی کوئی بدیشی نہیں بولتا اگر کوئی آفت آگئی یا قدرتی موت سے یہ تین افراد دم توڑ گئے تو بدیشی زبان ختم ہو جائیگی علماء کہتے ہیں کہ جسطرح پرندوں، جا نوروں، پودوں اور درختوں کی انواع و اقسام اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عظمت کی نشا نیاں ہیں اسی طرح زبانوں کی انواع و اقسام میں بھی قدرت کی بڑی نشا نی ہے اور قرآن میں اس کا ذکر آیا ہے ایک زبان کا معدوم ہونا دنیا میں قدرت کی ایک بڑی نشا نی کی معدومیت ہو گی اخبار بین حلقوں کو یا د ہو گا 13سال پہلے 2008ء میں ایک رپورٹ آئی تھی کہ نیپال کی حکومت نے ایک معمر خاتون سومہ دیوی کی زبان کو محفوظ رکھنے کے لئے دنیا کے تحقیقی اداروں کے تعاون سے اس بڑھیا کے گاوں میں ریسرچ لیبارٹری، پریس اور مر کز تحقیق قائم کیا تھا 20عالمی اداروں کے 100سے زیا دہ ما ہرین اس گاوں میں 30سا لوں سے مقیم تھے ان میں سے بعض اس بڑھیا کی صحت، ان کے خوراک، ان کی ورزش اور علا ج معا لجے پر ما مور تھے، بعض کے ذمے یہ کام لگا یا گیا تھا کہ خا تون کے پاس بیٹھ کر اس کی مادری زبان ڈیورا (Dura) کی کہانیاں ریکارڈ کریں، بعض کے ذمے گیتوں کی ریکارڈنگ تھی بعض کے ذمے خاتون کی زبان سے اس کی مادری زبان کے ذخیرہ الفاظ، اسماء، افعال، ضرب لامثال وغیرہ کی ریکارڈنگ کا کام تھا 2008ء میں سومہ دیوی کی عمر 82سال تھی ان کے انتقال کے بعد ڈیورا زبان کی بہت بڑی لائبریری وجو د میں آگئی جس میں معدوم ہونے والی زبا ن کی کہا نیاں بھی محفوظ ہیں گیت اور ذخیرہ الفاظ بھی محفوظ ہیں سومہ دیوی ایک مثال تھی اس مثال کو سامنے رکھ کر اگر حکومت پا کستان کا کوئی ادارہ کوشش کرے تو بدیشی زبان کے تین بولنے والوں کے لئے دنیا بھر سے کئی بڑی تنظیمیں سوات آسکتی ہیں ما نسہرہ کی ایک معدوم ہونے والی زبان کو محفوظ کرنے کے لئے نا رتھ ٹیکساس کی امریکی یو نیورسٹی نے ایک نو جوان کو سکا لر شپ دے کر امریکہ بلا یا ہے نو جوان کو ڈگری دینے کے بعد ما نسہرہ کے پہا ڑی گاوں میں ریسرچ لیبارٹری قائم کی جا ئیگی یہ نو جوان با ہر سے آنے والے محققین کی مدد کرے گا اگر خیبر پختونخوا کی حکومت نے بدیشی زبان کے بچے کھچے الفاظ اور ادبی و لسا نی مواد کو محفوظ کرنے کے لئے محبت خان کی مدد سے سوات کی تحصیل بحرین کے گاوں مغل مار میں مر کز تحقیق قائم کیا تو سویڈن، ناروے، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، امریکہ، چین، روس اور جا پان سے بڑے بڑے ادارے سوات آئینگے جس طرح 1980ء کے عشرے میں ڈاکٹر جون بارٹ اور لیلی گرین کے آنے کے بعد گاوری اور تور والی زبانوں کو تحریر میں لا نے پر کام کا آغا ز ہو ا مقا می ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی ٹو لیاں وجود میں آگئیں اسی طرح بدیشی زبان کو معدومیت سے بچا نے کے لئے سنجیدہ اور مر بوط کا م کا آغا ز ہو جا ئے گا اور قدرت کی ایک اہم نشا نی معدومیت کے خطرے سے بچ جا ئیگی۔