دھڑکنوں کی زبان،،،،محمد جاوید حیات،،،،،،”ہیرو ہیرو ہوتا ہے“
ہیرو کوئی عہدہ نہیں نہ کوئی ڈگری ہے یہ ایک معیار ہے ایک مشکل منزل جس تک پہنچنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں اور معیار بھی ایسا کہ اس تک پہنچنا کسی کا بھی خواب ہوتا ہے یہ منزل صدیوں میں ایک دفعہ سر کیا جاتا ہے اور کوئی ایک”بے مثال انسان“ہی وہاں تک پہنچتا ہے اور اسی کو ہیرو کہتے ہیں۔ہیرو خوابوں کا شہزادہ ہوتا ہے خواب سے حقیقت تک پہنچنے کے لیے بڑا کٹھن راستہ ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان ہمارے خوابوں کے شہزادے تھے۔لیکن یہ خوابوں کا شہزادہ مجھ جیسے لوگوں کے تھے جو کچھ نہیں جانتے ان کو کسی اندرونی کہانی کا پتہ نہیں۔ ان کو پتہ نہیں کہ یورینیم کیا ہوتا ہے اس کو افزودہ کس طرح کیا جاتا ہے۔اس کے لیے ریکٹر کس طرح بنایا ہے یہ اٹم بم کس بلا کا نام ہے اس کا فارمولہ”راز“ کیا ہوتا ہے کیا یہ یورینیم دنیا میں ہر کہیں ملتا ہے یا ہر کہیں نہیں ملتا۔آپ نے یہ سارا علم کہاں سے کس شوق اور جانفشانی سے سیکھا۔۔ہمیں صرف یہ پتہ ہے کہ 1971ء میں ہندوستان نے اپنے 1965ء کی جنگ کا بدلہ لیا اور شور مچانے لگا کہ اس نے بدلہ لیا۔ واقع ہماری فوج اس کی قید میں گئی تھی۔۔پھر یہ پتہ ہے کہ اس نے 1976ء میں اٹیمی دھماکہ کرنے کا دعوی کیا۔۔ہمیں اتنی خبر ہے کہ تو بیلجئیم میں بڑی پر تعش زندگی گزار رہے تھے آپ کی محبت اینی آپ کے ساتھ تھی۔ جب 1971ء کا سانحہ قوم کے ساتھ ہوا توآپ کا دل تڑپااپنی بے بس قوم کے لیے اپنے ملک کے لیے۔۔آپ نے اس وقت کے وزیر اعظم بٹھو مرحوم سے اپنا مدعا بیان کیااور ملک و قوم کے لیے اپنی قربانی کا ذکر کیا۔ہمیں وزیر اعظم کا وہ مشہور جملہ یاد ہے کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر اٹم بم بنائینگے۔۔ہمیں اتنا پتہ ہے کہ آپ نے بڑی مشکل حالات میں یہ لیبارٹری سیٹ کیا۔۔ہمیں اتنا پتہ ہے کہ آپ کو اس وقت صرف 3000ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی اس سے بھی آپ لیبارٹری کے لیے سامان خریدتے تھے۔۔ہمیں اتنا پتہ ہے کہ آپ نے اپنی ٹیم کے ساتھ 1984ء میں اس قابل ہوگیا تھا کہ اٹیمی دھماکہ کرتا۔آپ لوگ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے تھے آپ نے اس وقت کے صدر سے کہا تھا کہ ہم اٹیمی دھماکہ کرنے کے قابل ہوگئے ہیں اس نے خوشی سے تمہاری پیشانی چوما تھا تمہاری لیبارٹری کا نام تمہارے نام پہ رکھا تھا۔ہمیں اتنا یاد ہے کہ تم ڈاکٹر ثمر مبارک مند ڈاکٹر انعام الرحمن اور تمہارے دوسرے ساتھیوں نے اس پہ بس نہیں کیا تم لوگوں نے میزائل ٹیکنالوجی سے پاکستان کے دفاع کو نا قابل تسخیر بنایا۔ہمیں اتنا یاد ہے کہ جب1998ء کو بھارت نے اٹیمی دھماکہ کیا تو اس کے فوراً بعد ہمیں کھل کر دھمکی دی کہ وہ ہمیں نیست و نابود کرئے گا ہر روز اس کی نئی دھمکیاں آتیں مگر 28 مئی 1998ء کا وہ مبارک دن بھی آیا کہ آپ لوگوں نے پانچ کے مقابلے میں چھ دھماکے کیے تم اس سے بہت پہلے ہیرو بن گئے تھے اب قوم کی آنکھوں کے تارے بھی بن گئے ہمیں اتنا پتہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی آنکھوں کے تارے تم تھے تم پاکستان کے محسن اور اُمت کے لیے فخر تھے۔ہمیں یہ پتہ نہیں کہ ہم آزاد ہیں یا غلام ہیں ہمیں اتنا پتہ ہے کہ فرانس ہندوستان کو کھلم کھلا یورینیم سمگل کرتا ہے امریکہ اسرائیل کو اٹیمی طاقت بنا چکا ہے امریکہ اور برطانیہ نے B52 بنائے جن کو ٹسٹ بھی نہیں کر سکے کیونکہ ان اٹم بموں کی صلاحیت ہی ایسی ہے کہ ٹسٹ کرنے سے دنیا ختم ہو جائے گی لیکن وہ بے قصور ہیں۔ لیکن اگر تم نے اپنے بھائی ایران کو یہ کہا ہے کہ اٹم بم یون بناتے ہیں توتم مجرم ہو تمہیں امریکہ کے حوالہ کیا جائے گا تم پر پابندیاں لگیں گی تم عدالتوں میں گھسیٹے جاؤں گے پھر تمہیں گھر میں قید کیا جائے گا۔یہ سوئی ہوئی بے حس قوم تیری بے حرمتی پر خاموش رہے گی۔تو اسلام قران کی باتیں کرے گا تو دوسروں کی طرح اسلام مخالف باتیں نہیں کرے گا تو دینی جماعتوں کو پسند کرے گا تو تیری شخصیت ہی مشکوک ہو جائے گی۔تیری بیماری پر تیری کوئی بیمار پرسی نہیں کرے گا ایکٹروں، اداکاروں اور سیاست دانوں کو علاج کے لیے باہر بھیجا جائے گا کسی فنکشن میں پہلی لائنوں پر وزراء بیٹھیں گے تمہاری نشست درمیان میں کہیں ہوگی لیکن اس کے باوجود بھی تم ہیرو ہو تم ان دلوں کے ہیرو ہو جو بے بس ان پڑھ اور بے خبر ہیں بس اتنا جانتے ہیں کہ جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ تم ان دلوں کے ہیرو ہو جن کا اوڑھنا بچھونا یہ مٹی ہے۔ ان کا نہ کوئی بنک بیلنس ہے نہ باہر اکاونٹس ہیں نہ جائیدادیں کارخانے ہیں۔بس یہ ان کا رہن بسیرا ہے یہ مٹی ان کی پہچان ہے تم ان دلوں میں بستے ہو جو خالص تجھ سے محبت کرتے ہیں۔تم ان دلوں میں بستے ہو جو تیری زندگی میں تیری صحت کے لیے اور تیرے وصال کے بعد تیری مغفرت کے لیے اللہ کے حضور سر بہ سجود ہیں۔تو ہیرو ہے تم اس اُمت کے دلوں میں زندہ ہے اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے علی مرتضی ؓ کو شیر خدا اور خالد بن ولیدؓ کو اللہ کی تلوار کہا تھا اس لیے کہ وہ دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے تم اس دور کے بت شکن ہو دشمن کے غرور کا بت پاش پاش کیا ہے تم نے۔۔۔ تم محسن قوم ہو تمہارا احسان کسی امیر وزیر یا حکمران کے اوپر ہی نہیں ان غریبوں کے اوپر ہے جن کے دلوں اور یادوں میں تم زندہ ہو۔۔تم ہیرو ہو ہیرو مرا نہیں کرتے۔۔ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں