دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”عالمی یوم استاذ۔۔اس استاد کے نام”
استاد نام ہی قابل احترام ہے نہ چاہتے ہویے بھی احترام کرنے کو دل کرتا ہے۔انسان مخلوقات میں عقل اور شعور کی وجہ سے افضل ہے اور مکلف بھی کہ اس کو بہت سارے امتحانات دینے ہوتے ہیں بلکہ اللہ کے حضور ذرے ذرے کا حساب دینا ہوتا ہے۔ایسی ذی عقل مخلوق کی تربیت لازمی ہے جو استاد کے ہاتھوں انجام پاتی ہے۔اس کا ہاتھ پکڑ کر الف با لکھانے والا استاد ہوتا ہے اس کو صفائی ستھرائی کی تربیت دینے والا استاد ہوتا ہے اس کی ناک پونجھنے ہاتھ صاف کرنے واش روم جانے کی نصیحت کرنے والا استاد ہوتا یے۔اس کو اٹھنے بیٹھنے کی تربیت دینے والا استاد ہوتا ہے اس کو سچ بولنے حق نا حق میں فرق کرنے کی تربیت سیکھانے والا استاد ہوتا ہے اس کو معاشرے کے بے ہنگم شور اور بے ترتیب اجتماع سے بچا کر کردار سیکھانے والا استاد ہوتا ہے استاد گرو ہے، راہبر ہے، محسن ہے، مربی ہے، روحانی باپ ہے۔۔ استاد ہی بچے کو زندگی کی جنگ کے لیے تیار کرتا ہے۔دنیا میں کتنے اساتذہ ہیں جو اپنے شاگردوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔ ہیرو ہیں۔ وہ اپنی ساری زندگیاں ان کے نام کرتے ہیں۔لیکن سوال ہے کہ کیا سارے اساتذہ اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔افسوس سے ایسا نہیں ہے کسی بھی شاگرد کی زندگی میں شاید کوئی ایک استاد آجایے جو اس کا گرو ہو وہ اس سے متاثر ہو وہ اس کو نہ بھولتا ہو آخر یہ کونسا استاد ہوتا ہے۔۔یہ استاد نہیں استاد نما مسیحا ہوتا ہے یہ شاگردوں کی زندگیاں بدل کے رکھ دیتا ہے یہ کبھی اپنا وقت ضایع نہیں کرتا اور نہ کبھی شاگرد کا وقت ضایع کرتا ہے یہ کلاس روم میں شاگرد کے لیے ایسا آینہ ہوتا ہے کہ شاگرد اس میں اپنا مستقبل دیکھتا ہے وہ لفظ لفظ اس کے دماغ میں بھر دیتا ہے اس کے ذہن کو صلاحیتوں سے بھر دیتا ہے ایک ساقی کا کام کرتا ہے اور اس کی علمی پیاس بجھا دیتا ہے اس کو محنت، شرافت، کردار اور علم کے میے پلا کر سرشار کر دیتا ہے۔اس کو خودی کا درس دے کر خوداری کا پیکر بنا دیتا ہے اس کو جھکنے، بکنے اور مانگنے کی کوتاہیوں سے پاک کر دیتا ہے اس کو محنت کا خوگر بنا کر کندن بنا دیتا ہے۔اس کو کامیابی کا خواب دکھا کر پھراس کی تعبیر بتا تا ہے۔خود علم کا دریا ہوتا ہے شاگرد کی رگوں میں بہتا رہتا ہے۔وہ شاگرد کی رگوں میں خون بن کر، اس کی سانسوں میں خوشبو بن کر، اس کی آنکھوں میں چمک بن کر،اس کے دل کی دھڑکن بن کر اس کی رگ و پیے میں اترتا ہے۔شاگرد استاد کو دیکھ کر کھل اٹھتا ہے اور نہ دیکھے تو ماہی بے آب کی طرح تڑپتا ہے۔یہ استاد ایک الگ دنیا ہوتا ہے ایک کھلی کائنات، ایک دلنشین کتاب جس کے ہر ورق پہ ایک سبق لکھا ہو، ایک گر، ایک ہنر، ایک اچھائی اور ایک عظمت۔یہ ہر براء سے پاک ہوتا ہے۔لالچ،حسد، بعض کینہ سب سے پاک۔۔اس کی نگاہ جوہر انداز میں سارے شاگرد جوہر موتی اور یہ جوہری ہوتا ہے۔سارے شاگرد گلشن انسانیت کے پھول اور یہ۔مالی۔سارے شاگرد آکاش کے ستارے اور یہ چاند۔سارے شاگرد چہکتے چہچہاتے طیور اور یہ عندلیب۔سارے شاگرد کاروان علم کے بانکے مسافر اور یہ میر کاروان۔۔یہ صداقت کا پیکر،محبت کا تاج محل،خلوص کا مینارہ،محنت کی چٹان،یہی خوابوں کا شہزادہ،یہی وقت کا دھارہ بدل دیتا ہے اسی کے نام ”ڈے” منایے جاتے ہیں اسی کو یاد کیا جاتا ہے یہ ایک پھول ہیجس کا نغمہ شاگرد بلبل بن کر گاتے ہیں یہی وہ شمع ہے جس کی شاگرد پروانہ بن کر طواف کرتے ہیں۔۔اسی کی مثال دنیا میں رہی ہے
~۔۔پروانے کوچراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق رض کے لیے ہے خدا کا رسول ص بس
یہ ”ڈے” اسی استاد کے نام کیا جایے جو قوم کا محسن ہے۔۔آج استاد بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے وہ استاد جو نقل کا حامی ہے وہ استاد جومحنت سے جی چراتا ہے وہ استاد جو کرپشن کا حصہ ہے وہ استاد جو اپنا فرض منصبی چھوڑ کر سیاست خدمت کے نام پر نفرت پھیلانے اور دوسرے دھندوں میں ملوث ہے اس کے نام کیا ”ڈے” منایں۔خدا کرے وہ استاد کسی کی زندگی میں نہ آیے اور قوم کو اس کی ضرورت ہے۔استاد کو اپنی پہچان خود کرانا چاہیے اور اپنا مقام خود بنانا چاہیے تاکہ واقع اس کے ” نام ڈے ” منایا جایے۔۔۔سلام استاد