داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔ایک اچھا ما ڈل
شکوہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ اچھی با توں کو نظر انداز کرتے ہیں لیکن یہ پورا سچ نہیں اچھی باتیں منظر عام پرا ٓ ئیں تو ان کی بہت پذیرائی ہو تی ہے آج کا کا لم ایک ایسے سر کار ی سکول کے بارے میں ہے جو کسی بڑے سے بڑے پرائیویٹ سکول کا مقا بلہ کرتا ہے یہ ایک اچھا ما ڈل ہے اور اس کو ماڈل بنا نے کا سہرا عوام کے سر ہے عوام اگر سکول پر تو جہ دیں تو ہر سر کاری سکول اچھا نمو نہ بن سکتا ہے پشاور یا اسلا م اباد میں بیٹھا ہوا کوئی افیسر یا وزیر اس طرح کا کوئی کا ر نا مہ انجام نہیں دے سکتا گورنمنٹ ہائیر سیکینڈری سکول فتح پور تحصیل مٹہ ضلع سوات تمام پا کستان کے سرکاری سکو لوں کے لئے اچھی مثال ہے عوام نے اس کو کس طرح اچھی مثال بنا دیا؟ اس کی مختصر سی کہا نی ہے عوام سکول کی حا لت پر تشویش میں مبتلا تھے خدا نے عوام کی فر یا د سن لی اور ان کو مکین خا ن کی صورت میں ایک پرنسپل کی خد مات حا صل ہوئیں عوام چاہتے تھے کہ ان کے بچے گھر کی دہلیز پر سر کاری سکول میں بڑے پرائیویٹ اداروں کے برابر یا ان سے بہتر تعلیم حا صل کریں نیا پرنسپل آیا تو اُس نے عوام کے سامنے اپنا منصو بہ رکھا پرنسپل کا منصو بہ عوامی خوا ہشات کے عین مطا بق تھا ان کے منصو بے کے چار حصے تھے پہلا حصہ یہ تھا سکول کے اوقات بڑھا ئے جا ئیں دو گھٹنے کے اضا فے سے نصاب کی دہرائی کا مو قع ملے گا دوسرا حصہ یہ تھا غیر حا ضری صفر ہو، تیسرا حصہ یہ تھا کہ ما ہا نہ امتحا نات لئے جا ئیں اور امتحا نات کے نتا ئج والدین کو بھیجدئیے جا ئیں والدین ان نتا ئج پر اپنی رائے دیدیں ان کی رائے کو دیکھ کر اسباق اور امتحا نات کی تر تیب میں بہتری لائی جا ئیگی اس منصو بے کا چوتھاحصہ یہ تھا کہ مقا می طور پر وسائل پیدا کر کے لا ئبریری،سامان ورزش اور لیبارٹری کی حا لت بہتر بنا ئی جا ئے نیز سکول کے بنیا دی ڈھا نچے کو بہتر کر کے قرب و جوار سے روزا نہ گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ سفر کر کے آنے والے طلباء کے لئے ہا سٹل کی سہو لت فرا ہم کی جا ئے عوام نے اس منصو بے سے اتفاق کیا دیا نت داری، اما نت داری اور صدا قت سے اس پر عمل در آمد کا آغا ز ہوا پہلے چھ مہینوں میں عوام نے سکول کی سہو لیات اور تعلیمی پرو گرام پر اطمینان کا اظہار کیا ایک سال بعد پرنسپل نے جس طرح کی قر با نی کا مطا لبہ کیا عوام نے اس طرح کی قر با نی دی پہلے یہ بات سامنے آئی کہ سکول میں پرائیویٹ فنڈ بھی آتا تھا، سپورٹس فنڈ بھی آتا تھا، پی ٹی سی فنڈ بھی آتا تھا ان وسائل کا منا سب استعمال نہیں دیکھا گیا تھا کام کا آغا ز کمر ہ جما عت سے ہوا جہاں اسا تذہ اور طلباء کی سو فیصد حا ضری کو یقینی بنا یا گیا نصاب کے مطا بق اسباق چھ مہینے میں مکمل کئے گئے اگلے چھ مہینوں میں اسباق اور مشقوں کی دو بار دہرائی کروائی گئی ما ہا نہ ٹیسٹوں کے لئے خو ش خطی پر تو جہ دی گئی انگریزی اور اردو میں طلباء کی خو ش خطی بہت بہتر ہوئی پہلے سال دو نتیجے سامنے آئے طلباء نے سکول میں دلچسپی لی عوام نے سکول کو وقت دیا اور سکول کی بہتری کے لئے ما لی قر با نی پر کمر بستہ ہوگئے ان دو نتا ئج نے آگے کا سفر آسان کر دیا دوسرے سال ہا سٹل کی تعمیر شروع ہو ئی اور سر کاری سکول کو رہا ئشی درس گا ہ کا در جہ دیا گیا ایک بورڈ نگ سکول میں تعلیم و تر بیت کا جو ما حول ہو نا چا ہئیے وہ ما حول فرا ہم کیا گیا اس مر حلے پر ایک دلچسپ مسئلہ پیدا ہو امسئلہ یہ تھا کہ نو یں اور گیا ر ھویں جما عتوں کے دا خلے با قاعدہ ٹیسٹ کے زریعے ہو نے لگے، سیا ستدا نوں اور افیسروں کی طرف سے فیل ہو نے والوں کو دا خل کرنے کے لئے دباؤ بڑ ھا یا گیا پر نسپل اور ان کے سٹاف نے دباؤ کو مسترد کیا تو طا قتور لو گوں نے پر نسپل کو تبدیل کر دیا پرنسپل کی تبدیلی کا سن کر عوام مشتعل ہو ئے اور تبدیلی کو منسوخ کروا دیا اس کے بعد تین اور موا قع ایسے آ گئے جب بھی وزیر یا ایم پی اے نے پرنسپل کو سکول سے الگ کرنے کا حکمنا مہ جا ری کر وا یا تو عوام نے اس حکمنا مے کی دھجیاں اڑا دیں سکول کی دن دوگنی را ت چو گنی تر قی کا سفر جا ری رہا مکین خا ن صاحب اپنی تصویر چھپوا نا نہیں چا ہتے اپنے کام کی تشہیر میں دلچسپی نہیں رکھتے اپنے سکول کو ما ڈل اور نمو نہ بھی نہیں کہتے مو لوی عبد الحق نے اورنگ اباد دکن میں ایک ما لی کا خا کہ لکھا نا م تھا اُس کا نا م دیو، اس نے کبھی نا م کی فکر نہیں کی اپنے کام سے کام رکھا اس کی پہچان نا م کی جگہ کا م ہی بن گیا فتح پور سوات کے مثا لی سکول کا پر نسپل بھی نا م سے زیا دہ کام سے دلچسپی رکھتا ہے ہم جیسے لو گوں کے سامنے ایک سوال ہے اور یہ سوال فتح پور کے مثا لی عوام کے سامنے بھی ہے کیا مکین خا ن کا سکول ان کی ریٹا ئر منٹ کے بعد بھی ایسا ہی مثا لی رہے گا؟ اس سوال کا جواب سسٹم نہیں دے سکتا، حکومت نہیں دے سکتی عوام ہی جوا ب دے سکتے ہیں عوام اگر اسی طرح بیدار اور مستعد رہے تو سکول اسی طرح اپنی مثا لی حیثیت کو بر قرار رکھے گا بس اس کو سسٹم سے، حکومت سے اور کا م چوروں سے بچا کر رکھنا ہو گا۔