داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔1971کا پشاور
ایک دوست کے ساتھ آ سا ما ئی دروازے کے اندر دا خل ہو کر دیکھا تو دروازہ نہیں تھا دوست نے کہا آسا ما ئی دروازہ کد ھر ہے؟ دوست کو بتا یا یہی جگہ ہے جہاں دروازہ تھا وقت کی نا قدری نے دروازہ غا ئب کر دیا اندر شہر کی سیر کرو دائیں ہاتھ مڑ کر دالگران کے راستے قصہ خوا نی میں دا خل ہو جا ؤ پھر میں تمہیں بتا و نگا کہ 1971میں پشاور کیسا تھا؟ ”نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں“ پچاس سال پہلے مسجدوں کے دروازوں پر ایک ہی تختی ہو تی تھی ”اپنے چپل کی خود حفا ظت کریں“ اب دو تختیاں ہو تی ہیں ایک پر چپل کی حفا ظت لکھی ہے دوسری تختی پر نئی عبارت در ج ہے ”مو بائل فو ن بند کریں“ آج قصہ خوا نی کا پورا نقشہ بدل گیا ہے پورے بازار میں ”تا ج سوذا“ کے سوا نصف صدی پہلے کی کوئی دکا ن آپ کو نہیں ملے گی مسا فروں کے ٹھہر نے کی سب سے اچھی جگہ دو منزلہ سرائے ہوتی تھی سرائے میں چار پا ئی کا ملنا بہت بڑی بات تھی شہر میں کوئی نیا ہو ٹل بنتا تو ہو ٹل کے بورڈ پر جلی حروف میں فلش سسٹم کا اشتہار لکھ دیا جا تا گو یا پر تعیش زند گی کی یہ نعمت ہر جگہ دستیا ب نہیں تھی اُس زما نے میں نیٹ کیفے کا نا م کسی نے نہیں سنا تھا جدید چا ئے خا نوں کو کیفے کہا جا تا تھا سینما روڈ پر خور شید کیفے اور خیبر بازار میں کیسینو کیفے ہو ا کر تے تھے یہاں فر ما ئش پر گرا مو فو ن ریکارڈ سننے کی سہو لت ہو تی تھی ایک مہما ن کا غذ کے ٹکڑ ے پر فلم بڑی بہن یا مغل اعظم کا کوئی گا نا لکھ کر دے دیتا دوسرا مہمان فلم اوارہ کا گا نا لکھ دیتا تیسرا مہمان فلم سر فروش کا گا نا لکھ دیتا باری باری ہر ایک کی فر ما ئش پوری کی جا تی سارا دن رونق لگی رہتی رات دیر تک کیفے کھلے رہتے کا بلی چوک میں تانگے کھڑے ہو تے دو روپے میں چھ سواری صدر تک جا تے، جی ٹی ایس کی ڈبل ڈیکر بس روڈ ویز ہا وس ہشتنگری سے اسلا میہ کا لج تک جا تی تھی دو سواریوں کا ایک روپیہ کرا یہ تھا طا لب علموں کے لئے نصف کرایے کی رعا یت تھی ایک روپے میں چا رسواری منزل مقصود پر پہنچتے تھے مو لا نا حا لی نے کیا بات کہی وقت پیری اور شباب کی باتیں ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں پشاور شہر اور صدر میں سات سینما گھر تھے پھر امان سینما گھر تعمیر ہوا تو تعداد آٹھ ہو گئی فلموں کے ٹکٹ کے لئے ٹکٹ گھر کی کھڑکیوں پر ہجوم لگتا تھا کوئی فلم زیا دہ مقبول ہو تی اور کئی ہفتے چلتی تو اشتہار میں لکھ دیا جا تا ”دسواں کھڑ کی توڑ ہفتہ“ ٹکٹ دینے والے با بو یا گیٹ کیپر سے واقفیت بہت بڑی بات ہو تی تھی سینما دیکھنا عمو ماً نو جوا نوں اور اوباش لو گوں کا شغل سمجھا جا تا تھا اگر کوئی داڑھی والا فلم دیکھنے جا تا تو چادر سے منہ اور داڑھی کو چھپا لیتا تھا پھر ٹی وی آیا پھر وی سی پی آگیا اس کے بعد کیبل اور ڈی ٹی ایچ آیا، یو ٹیوب کے کما لات دیکھنے میں آئے نہ سینما گھروں کی حا جت رہی نہ ٹکٹ گھروں کی ضرورت رہی نہ ٹکٹ گھر کے با بو اور گیٹ کیپر کی منت اور تر لے رہے اب مو نچھوں والا بھی گھر بیٹھے عیا شی کے مزے لوٹ رہا ہے اور داڑھی والا بھی گھر بیٹھے فلم دیکھ رہا ہے اگر چہ داڑھی اور منہ چھپا نے کو ما سک عام ہو گیا ہے تا ہم اس کی چنداں حا جت نہیں پلک جھپکنے میں 50بر س بیت گئے 1971کے پشاور کا ہارڈ وئیر بھی تبدیل ہوا، سافٹ وئیر بھی تبدیل ہوا چنا نچہ اب دیکھی بھا لی صورت پہچا نی نہیں جا تی آج ہم دیکھتے ہیں آئے روز جنا ح پارک کے قریب اسمبلی چوک پر احتجا جی جلسے اور جلو س ہو تے ہیں آنسو گیس کی شیلنگ ہو تی ہے انگریزوں نے پشاور میں کوئی اسمبلی ہا ل نہیں بنا یا تھا فیلڈ مار شل ایوب خا ن کی بنا ئی ہوئی رورل اکیڈ یمی کی عمارت میں اسمبلی کے اجلاس ہو تے تھے اور یہ عما رت شہر سے کوسوں دُور واقع تھی آج یہ جا ن کر حیرت ہو تی ہے کہ انگریز جمہوریت پر فخر کرتے تھے پختونوں کے لئے اسمبلی کی کوئی عما رت انہوں نے کیوں نہیں بنا ئی؟ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ انہوں نے سوچ سمجھ کر نہیں بنا ئی میں اپنے دوست کے ہمراہ واپس آسا ما ئی دروازے کے قریب پہنچ گیا ہوں لیکن میرا دل نصف صدی پہلے کے پشاور میں بھٹک رہا ہے