کچھ حقیقت،کچھ افسانہ۔۔۔۔۔۔ تحریر۔۔۔۔۔۔یاسمین الہی قاضی
چار سال پہلے گلگت سے چترال آتے ہوئے مستوج کے قریب بھائی نے گاڑی روک دی۔۔۔سب نیچے اتر کر خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگے۔۔ ایک شان کے ساتھ طلسماتی انداز میں بہتا ہوا دریا ے یار خون،اور اس کے کنارے مخمل سی بچھی گھاس۔۔۔دورکہیں بانسری کی آواز دل لبھانے کے لیے کافی تھا۔۔ سب ان ہوشربا مناظر کے سحر میں جھکڑکر اپنی اپنی دھن میں
مست و سرشار تھے
۔۔میں طبعا تنہاء پسند واقع ہوئی ہوں۔۔۔ اس لیے دوسرے بہن بھائیوں کے ٹولے سے نکل کر قدرت کے حسین مناظر کو اپنے موبائل میں محفوظ کرتے ہوئے آگے بڑھتی رہی۔۔۔ گائیگھاس سیمنھ لگائے یوں چر رہی تھی گویا سر اٹھایا تو گھاس غائب ہی ہو جائے گی۔۔۔۔۔
اب بانسری کے ساتھ ساتھ کوئی گا بھی رہا تھا کچھ ماحول کی تاثیر،کچھ گانے والے کی آواز میں موجود درد، فضا کو اور بھی خوبصورت اور مسحورکن بنا رہا تھا اگرچہ گانے کے بول تو نہیں سن پائی البتہ اتنا ضرور محسوس کیا کہ کوئی بہت ہی غمگین گانا ہے۔###
۔مختلف درخت اور جھاڑیاں دریا کے کنارے تک پھیلے ہوئے تھے ابھی میں ایک اور سیلفی لینے کا سوچ رہی تھی کہ اتنے میں جھاڑیوں میں سرسراہٹ محسوس ہوئی خوف کی ایک لہر ساری جسم میں دوڑ گئی۔شاید کوئی سانپ ہے یہ ذہن میں آتے ہی مجھے اپنے دوسرے بہن بھائیوں کا خیال آیا جنہں میں پیچھے کہیں بہت دور چھوڑ آئی تھی اپنی اس بے وقوفی پر مجھے بہت غصہ آیا۔۔۔ مین تنہا بہت دور نکل آئی تھی۔۔۔
میری نگاہیں بدستور جھاڑیوں کی طرف تھیں۔ اتنے میں ایک 27, 26 سال کی لڑکی ہا نپتے ہوینمودار ہوئی۔۔
چڑیل۔۔۔۔کوئی چڑیل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر فوراً دماغ نے کہا یہ تو خوبصورت ہے چڑیل تو بڑے بڑے دانتوں والی ہوتی ہیں یہ بات دماغ میں آتے ہی میں نے زبردستی مسکراکر خود کو نارمل کر نے کی کوشش کی۔۔۔۔۔
میری موجودگی سے وہ بھی خاصی پریشان لگ رہی تھی۔۔
##
میرے بے معنی سی مسکراہٹ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر حیرانی کے آثار نمودار ہوئے مگر پھر بڑے نرم اور پیاری آواز میں مسکرا کرسلام کیا۔۔۔۔۔
اہ۔۔۔۔۔ آہ… بہادر لڑکی!!!!موت اس کے سامنے باہیں کھولے کھڑی تھی مگر وہ تہذیب اور روایت کی پاسداری کرتے ہوئے مجھے مسکرا کر سلام کر رہی تھی…
یہ کہہ کر نسیمہ کچھ دیر رکی پھر آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے دور خلا کو گھورتے ہوئیاگے کی کہانی بتانے لگی۔اچھا تو کیا آپ قریبی گاؤں سے آئی ہیں میں نے ایسے ہی پوچھا۔۔
جہ۔۔۔جہ جی۔۔۔۔
مسکراہٹ پھر اس کے چہرے پرپھیل گئی۔۔۔۔۔۔دریا میں ہاتھ پاؤں دھونے کے لیے ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گئی میں بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔۔
##
باتوں کے دوران بات بات پر بے جان اور بے معنی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوتی مگر آنکھیں حسین ہونے کے باوجود ویرانی میں ڈوبی نظر آتی۔۔۔
۔کیا یہ آپ کے گائے ہیں آپ ان کو لینے آئی ہو؟؟ میں نے دریا کے کنارے موجود گاؤں کی طرف اشارہ کر کے پوچھنا ضروری سمجھا.
یہ سن کر گل ناز نے نفی میں صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔۔۔۔دس پندرہ منٹ کی ملاقات میں وہ مجھ سے کافی مانوس ہو گئی تھی۔ پوچھنے لگی کیا میرے بارے میں جاننا پسند کریں گی؟؟؟
اس غیر متوقع سوال کونہ سمجھتے ہوئے میں کھسیانی سی ہو کر رہ گئی۔۔۔۔
پاؤ ں پانی میں ڈالے پانی سے کھیلتے ہوئے خود ہی اپنی کہانی سنانے لگی جیسے اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ میں کون ہوں اور مجھے اس کی کہانی سے کوئی دلچسپی بھی ہے یانہیں ###
بس وہ اپنی کہانی شاید آج سنا کر ہی رہنے والی تھی۔۔۔۔۔
واقعی میں آج اگر وہ اپنی کہانی نہ سناتی تو۔۔۔۔۔۔۔
نسیمہ کچھ کہتے کہتے سوچوں میں ڈوب گئی۔۔۔۔۔
کافی دیر خاموش رہنے کے بعد بول پڑی۔۔
گلناز کی کہانی کچھ یوں تھی۔۔۔۔ سات آٹھ سال پہلے ان کے چچا نے اپنے دوست کے بیٹے کے رشتے کے لئے اس کے والد ماسٹر عبدالغفور کو مجبور کیا تھا حالانکہ گل ناز کویہ رشتہ ہر گز قبول نہیں تھا ماسٹر عبدالغفور بھی اپنی بیٹی کی مرضی کے آگے ہتھیار ڈال دیتا اگر چچا فیروز خان سارے رشتے ناطے توڑنے کی دھمکی نہ دے دیتا۔۔
گل ناز جیسی پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی کو دوسرے گاوں کے زمیندار اشرف کے بیٹے احمد کو سونپ دیا گیا احمد ان پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ برے دوستوں کی صحبت کا عادی بھی تھا۔۔۔۔
احمد کا ایک اور بھائی تھا جس کا نام اسد تھا۔اس کا دماغی توازن درست نہیں تھا۔۔
چار بہنیں تھیں جن میں سے دو کی شادی ہو گئی تھی جبکہ دو گھر میں ان کے ساتھ ہی رہتی تھی۔۔انکی امی تیز طرار عورت کے طور پر پوریگاؤں میں مشہور تھی ہی۔۔۔ مگر بہو کے لیے تو ڈائن ہی ثابت ہوئی۔##
اس گھر میں قدم رکھتے ہی گویا قسمت کی دیوی اس سے ہمیشہ کے لییروٹھ گئی۔۔ چند دن تک تو احمداس کے گن گا تا رہا مگر بہت جلد وہ اپنی اصلیت پر اتر آیا۔وہ چرس اور بھنگ کے نشے میں ہر وقت دھت رہتا گلناز کو گالی دیتا مارتا پیٹتا۔۔۔۔
مگر گھر والے پھر بھی گل ناز کو ہی قصوروار ٹھہرا کر اس کو کوستے رہتے۔۔۔۔
گل ناز ایک پرائیوٹ سکول میں پڑھاتی تھی۔
ہر وقت احمد اس کے پرس کی تلاشی لیتا سارے پیسے چھین لیتا اگر کچھ نہ ملتا تو گل ناز کو مارنے لگتا۔۔##
نندیں اس کی جیولری اور اچھے جوڑوں پر اپنا حق جتاتی رھتی۔۔۔ پھر بھی ساس اور سسر کو خرابی گل ناز ہی میں نظر آتی تھی۔۔۔۔ ہردن نئے سرے سے اٹھنے والا معرکہ گل ناز کی سسکیوں پر ختم ہوتا۔۔۔۔ ان آٹھ سالوں میں ہمیشہ یہی معمول رہا تھا۔کء بار گلناز اپنے میکے جا کے بیٹھ گئی تھی مگر بھابھییوں کے طنز میں ڈوبے نشتر اس کے نازک دل کو چیر کے رکھ دیتے۔۔۔ اور ماں اور باپ کی بیبسی ان سے دیکھی نہیں جاتی اور یوں مجبورا پھر وہ خود ہی چل کے اس جہنم میں داخل ہو جاتی۔۔۔ مگر ایک دن تو حد ہی ھو گء۔۔۔۔
ایسا واقعہ پیش آیا کہ یہ خوبصورت صابرہ اور متحمل مزاج لڑکی خودکشی جیسے حرام فعل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی یہ واقعہ کچھ یوں تھا کہ اسد ابنارمل تو تھا مگر پھر بھی اس کی وہ حرکت ناقابل معافی نہیں تھی مگر اس جرم کو بھی گل ناز کے گلے میں ڈال کر اسے ذلیل کیا گیا##
ایک دن گھر والے پڑوس میں شادی میں گئے ہوئے تھے جب گل نازتھکی ہاری سکول سے گھر پہنچی۔وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بے سدھ پڑی سستا رہی تھی۔۔ آخر تھکن کیوں نہ ہوتی۔ پورے 45 منٹ کا فاصلہ پیدل چل کر آئی تھی پنکھے کے نیچے بیڈ پر اسے کافی سکون کا احساس ہورہا تھا۔۔ آنکھیں بند تھیں مگر کسی کے کمرے میں داخل ہونے کا احساس ہوا سوچا احمد ہوں گے مگر جب آنکھیں دھیریسے کھول کر دیکھا تو اسد اس کے اوپر کھڑے شیطانی ہنسی ہنس رہے تھے۔۔۔اور عجیب عجیب حرکت کرر ہا تھا۔ گلناز کو خطرے کا احساس ہوا اور اٹھ کھڑی ہوگئی دروازے کی طرف لپکی۔۔مگر۔۔۔ دروازے پر اسد شیطان بنیکھڑا تھا بیچاری باہر بھی نہیں نکل سکتی تھی آہستہ آہستہ اسد شیطانی ہنسی کے ساتھ اس کی طرف بڑھنے لگا بدحواسی کے عالم میں گل ناز کے منہ سے چیخ نکل رہی تھی مگر جب اسد اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو غیرارادی طور پر شیشے کی جگ اٹھا کر اس کے چہرے پر دے مارا اسد کا چہرہ خون سے بھر گیا وہ فرش پر گر کر زور زور سیرونے لگا۔۔۔
عین اسی لمحے اس کی ساس اور نندیں بھی پہنچ گئی گلناز نے روتے ہوئے سب کہہ سنایا مگر ان لوگوں نے الٹا گلناز کو ہی مورد الزام ٹھہرا کراحمد سے اسکی خوب پٹائی کروائی۔۔اج تو گالیوں کے ساتھ بدچلن عورت کا خطاب بھی اس کے ماتھے پر سجا دیاگیا۔۔ اب اس بدنامی کے ساتھ جینا ممکن ھی نہیں تھا
مگر۔۔۔افسوس تو اس بات کا تھا کہ
اسد پھر بھی سب کا منظورِ نظر ھی رہا۔
ساس اور نندوں نے بہو کو الزامات اور گالیاں دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔
اپنی بپتا سنا کر جب گلناز نے اپنے بازو پر لگے زخم دکھائے تو میرا دل ہولنے لگا۔۔گل نے اپنی زندگی کے اس عذاب سے چھٹکارا پانے کے لیے خودکشی کی نیت سے اس دریا کے کنارے آئی تھی میں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی میں نے کہا کہ ”حرام موت مرکراپنی آخرت تباہ مت کرو مگر۔۔۔مگر پتہ ہے اس نے جواب میں کیا کہا؟؟
کہانی سناتے سناتے نسیمہ نیاچانک سوال داغ دیا۔۔۔۔ مگر مجھے خاموش دیکھ کر خود ہی بول پڑی۔۔۔
اس نے کہا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ زندگی بھی تو عذاب سے کم نہیں ہے۔۔
تم ایک آزاد ملک کے شہری ہوں ہو تمھیں بہو کی حیثیت سے بہت سارے حقوق ملیں گے۔۔۔۔تیرے ملک کا قانون پوچھے گا ان درندوں کو اور۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات مکمل ہونے سے پہلے وہ طنزیہ انداز میں بول پڑی بتائیں کیا حقوق حاصل ہیں مجھ جیسی بہو کو پاکستان کے قانون میں؟؟؟؟؟یہ حقوق کس طرح حاصل کر سکوں گی اور کہاں سے حاصل کر سکوں گی؟؟؟اس کی کسی سوال کا جواب خودمیرے پاس بھی نہیں تھا۔۔۔۔ میں نے کہا بہت ساری تنظیمیں ہیں ادارے ہیں اندھیر نگری تھوڑی ہے میرے یہ دلائل بھی گلناز تحمل سے سننے کے بعد میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی۔ چلیں۔۔ کوئی رابطہ نمبر ایسی تنظیموں یا اداروں کا دیجئے۔۔میں آج ہی اپنے اس ارادے کو ملتوی کر کے توبہ کر لوں گی۔۔۔۔
معلوم کرلیں گے یار کسی سے۔۔۔۔ میں نے بے بسی سے کہا۔۔۔۔
یہ سن کر اس کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی اور بولی۔۔بہت کوشش کی۔ مگر پھر بھی مجھے کوئی ایسی تنظیم یا ادارہ نہیں ملا جو ایسی عورتوں کو ان کا حق دلوائے۔۔۔یا تحفظ فراھم کرے۔۔۔
اس کی آنکھیں بھی بھیگنے لگیں آواز گلے میں رندھ گئی۔
پھر بڑے دکھ بھری آواز میں گل ناز کہنے لگی
میں جینا چاہتی تھی۔۔
میں اب بھی جینا چاہتی ہوں۔۔مگر یہ لوگ اور یہ بے بسی مجھے جینے نہیں دے رہے۔۔۔۔۔۔
اتنے میں پیچھے سے آواز ائی
آپی۔۔۔۔اپی۔۔۔!!!!!
آواز کے تعاقب میں میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرا چھوٹا بھائی مجھے ڈھونڈتے ہوئے وہاں آیا تھااور ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلا رہے تھے۔۔۔۔
اتنے میں دوسری طرف سے ایک شخص نمودار ہوا میری موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے گلناز کو گالی بکنے لگا۔ گل ناز کا وہ جانورنما شوہر یقینا یہی تھا جو گل ناز کے بقول اسلام کی باقی تعلیمات سیتو بے خبر تھا مگر اتنا اس کو ضرور معلوم تھا کہ اللہ نے مردوں کو عورت پر فوقیت دے رکھا ہے اپنے ناقص علم کی بدولت گلناز کا جیناہمیشہ دوبھر کرتا رہا مجھے اس سے پہچاننے میں ذرا دیر نہیں لگی۔۔۔۔۔۔
وہ بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا ہماری طرف آ رہا تھا سگریٹ کے دھوئیں سے سارا چہرہ اس کا سیاہ ہورہا تھا۔۔۔۔۔
اتنے میں ”شڑاپ” کی آواز آئی۔۔ اس درندے سے نظر ہٹا کر میں نیگل ناز کی طرف دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا دور بہتے ہوئے گلناز کے دوپٹے کی ایک جھلک نے مجھے سب کچھ سمجھا دیا۔۔۔
گل ناز دریا ییا رخون میں بہہ گئی تھی اپنے ساتھ اپنی جینے کی آس لے کر۔۔۔۔
گل ناز کی دکھی کہا نی سنا کر نسیمہ سسک سسک کر رو ے لگی۔۔
کیا میرے علاقے میں عورتوں کا اپنے حقوق کے لیے عدالت سے رجوع کر نا بیعزتی اور بے حیائی خیال نہیں کیا جاتا؟؟؟ کیا ہ خود کشی کے بعد لوگوں کے ہمدردی کے چند بول اور چند اداروں کے چند وقتی تقریروں کے بعد خود کشی کے واقعے کو بھلایا نہیں جاتا؟؟؟؟ کیا میرے علاقے کے ہر بیٹی کوانٹرنیٹ, کسی تنظیم یا ادارے تک رسائی حاصل ہے؟؟؟اگر خودکشی نفسیاتی بیماری کا نتیجہ ہے تو تندرست انسان کو نفسیاتی طور پر مفلوج کرنے والے محرکات کا پتہ لگانا ضروری نہیں ہے؟؟؟؟ نسیمہ روتے روتے مجھ سے پوچھنے لگی ان کے کسی سوال کا کوئی درست اور مناسب جواب میرے پاس بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
##
کیا واقعی عورت کو کوئی حقوق حاصل نہیں؟؟ یا عورتیں خود اپنے حقوق سے لاعلم ہیں؟
عورتوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری صرف حکومت کی ہے؟کیا حکومت کے لیے ممکن ہے گھر گھر جاکر آگاہی پھیلانا؟ یا ان معاشرتی نا ہمواریوں کی اصل وجہ دین اسلام کے صحیح رویہ سے نا آشنائی ہے؟؟ان سب سوالوں کا جواب تو میں بھی نہ دے سکی
لیکن یہ ضرور کہہ دوں گی کہ یہ خود کشی تو نہیں ہے ہرگز نہیں ہے۔ یہ ہے قتل گل ناز کا قتل۔۔۔۔ قاتل حکومت ہے؟ یاحقوق نسواں کے نام نہاد یہ ادارے ہیں؟ جوعورتوں کے حقوق کا واویلا تو کرتے ہیں مگر عملاً کچھ نہیں کرتے۔۔یا بے جوڑ رشتے کرنے والے ماں باپ ہیں؟ یا ظلم کرنے والے ایسے درندہ صفت لوگ ہیں۔؟؟؟؟؟۔جواب دینے کی ذمہ داری
قارئین پر چھوڑ دیتی ہوں۔۔۔۔۔