ریشن کے غیرمند لوگ۔۔۔۔۔۔شمس الرحمن تاجک
حکومتی اہلکار آئے تھے کچھ غیر ملکی ڈونرز کے ساتھ۔ مدعا بیان کیا گیا کہ ہم آپ کے پورے علاقے کو منور کردیں گے مگر شرط صرف ایک ہی ہے،چرس کی کاشت اور مقامی سطح پر فروخت کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔ چرس کے سائیڈ ایفکیٹ بتائے گئے کہ اس سے نوجوان نسل بروباد ہورہی ہے۔ عوامی گرین سگنل یا یوں کہیں کہ عوام کو الو بنانے میں کامیاب ہونے کے بعد ریش کا بجلی گھر انتہائی عجلت میں بنایا گیا۔ نہ علاقہ دیکھا گیا اور نہ ہی ہر سال آنے والے سیلابی ریلے کا کسی نے تذکرہ کیا۔ خیر کچھ سالوں بعد علاقہ منور ہوگیا بھلے چند دنوں کے لئے ہوا ہو مگر اصل ہدف حاصل ہوا۔ پھر چترال میں چاہے وہ اپر ہو یا لوئر چرس کی کاشت ایک جرم عظیم بن گیا۔ البتہ چرس پینا ایک فیشن۔ اس فیشن کو اتنا پروموٹ کیا گیا کہ اب تقریبا ہر گھر میں ایک چرسی موجود ہے۔ اس فیشن کے اسباب پر جب غور کرنے لگیں تو تانے بانے ریشن بجلی گھر سے ہوتے ہوئے چرس کے مقامی کاروبار پر قبضے تک پہنچتے ہیں۔ مطلب ریشن کا بجلی گھر اپر چترال کو منور کرنے کے لئے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ مقامی سطح پر دستیاب چرس کی وجہ سے اس کاروبار سے منسلک بڑے لوگوں کا چرس چترال میں نہیں بک رہا تھا اس لئے بجلی گھر بنانے کے بہانے مقامی چرس کے پیدوار کے تمام ذرائع ختم کردیئے گئے غیر مقامی لوگوں نے چرس کی سپلائی شروع کردی۔ بیس روپے میں ملنے والا چرس اب دو ہزار روپے میں ہر گھر کے دروازے پر دستیاب ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ ریشن کی خوبصورتی باقی رہی، نہ بجلی گھر اور نہ ہی چرس کا مقامی پیداوار۔ اگر کچھ باقی ہے تو اندھیروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، بے حساب اور مہنگا ترین غیر مقامی چرس اور ٹکڑوں کے حساب سے دریا برد ہوتا ہوا ریشن گاؤں۔
ریشن گاؤں گزشتہ سات سال سے آہستہ آہستہ اپنے خاتمے کے سفر کی جانب گامزن ہے۔ روز اگر گز کے حساب سے نہیں تو فٹ کے حساب دریا برد ہورہا ہے۔ اس بربادی کا نہ تو ریشن والوں کو احساس ہے اور نہ ہی انتظامیہ کو۔ ہاں البتہ ریشن کی بحالی کے نام پر کھایا بہت کچھ گیا۔ بہت سارے لوگوں کی روزی روٹی چل ہی اس بنا پر رہی ہے کہ ریشن روزانہ کے حساب سے قد کاٹھ میں کم ہوتا جائے۔ مگر حیرت ریشن والوں پر ہورہی ہے۔ ہم نے روان سال ریشن میں تاریخ رقم ہوتے ہوئے دیکھا کہ حکومت نے 80 لاکھ روپے خرچ کرکے دریا کا رخ موڑنے کے نام پر ریت کی دیوار کھڑی کی۔ یہ کوئی محاورہ نہیں بلکہ حقیقتا ریت کی دیوار کھڑی کی گئی اور ذمہ داروں نے ریشن کے باسیوں کے ساتھ مل کر اس ریت کی گرتی ہوئی دیوار پر کھڑے ہوکر کامیابی کا جشن منایا۔ کوئی ہے جو 80 لاکھ روپے دریا میں بہانے والوں سے حساب کتاب مانگے؟ یہ صرف 80 لاکھ روپے ہی نہیں، کم از کم ایک ہزار چکورم قیمتی زمین اور کئی غریبوں کے گھر آسی لاکھ کی ریت سے بنی ہوئی دیوار کے ساتھ ہی بہہ گئے۔
تماشا تو ہمارے ملک میں ہمیشہ سے ہوتا رہا۔ مملکت کا عام آدمی دو ہنر کمال کا رکھتا ہے ایک تماش بین اور دوسرا میراثیوں کی طرح تالی بجانا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں آدھا ریشن دریا برد ہوچکا ہے اور این ایچ اے والے آدھی بچی ہوئی گاؤں کے گھروں کو مسمار کرکے سڑک بنا کر اسے کامیابی شمار کررہے ہیں۔ اخباری بیانات ریشن والوں کی غیرت کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں کہ انہوں نے اپنے گھروں کے بیچ این ایچ اے کو سڑک بنانے کی اجازت دی۔ کسی شخص کی واحد رہائشی اور عمر بھر کی کمائی کے بعد بنائے گئے گھر کو مسمار کرکے بچی ہوئی ایک ہی کھیت کو سڑک بنانے کے بعد ذمہ دار آپ کو غیرت مند بولیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں مگر آپ سمجھ نہیں رہے ہیں۔
یہاں سوال بنتا ہے کہ ریشن گاؤں یا اپر چترال کے باسیوں سے کسی کو رتی برابر بھی ہمدردی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ ہر ذمہ دار شخص نے ریشن گاؤں میں گھروں کے بہنے کا انتظار کیا ہے۔ یہاں تک گاؤں کے باسیوں نے بھی غداروں کا کردار ادا کیا ہے۔ سات سالوں سے انہوں نے ان لوگوں کے لئے زندہ باد کے نعرے لگائے ہیں جو ان کے گھروں کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف تھے۔ آج سب کچھ بہہ جانے کے بعد باقی ماندہ گھروں کو مسمار کرکے بربادی کے مینار پر کھڑے ہو کر انہی لوگوں کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں جو اس تمام تباہی کے ذمہ دار ہیں۔
پچاس میٹر کی حفاظتی دیوار پورے گاؤں کو بچا سکتی تھی مگر اربوں روپے کے فنڈز کے باوجود چترال اور ملک میں موجود تمام اداروں نے شدید ترین غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس غفلتپر پردہ ڈالنے کے لئے لوگوں کے مسمار شدہ گھروں کے ملبوں پر کھڑے ہو کر خیرات بانٹ رہے ہیں۔ اور ریشن والوں کی بے شرمی دیکھیں کہ کروڑوں کی جائیداد جن کی وجہ سے دریا برد ہوا اسی سے دو کلو آٹا خیرات لینے پر راضی ہیں۔ نہ صرف خیرات لینے پر بلکہ پوری دنیا کے سامنے خیرات لیتے ہوئے اپنی تصویر بنانے پر بھی رضامند ہوگئے۔ واہ ریشن کے غیرت مند لوگو!!