دھڑکنوں کی زبان ۔۔’نظام ضرور بدلے گا “۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

جماعت اسلامی نے لاہور میں ایک بڑی کنونشن کاانعقاد کیا۔حاضرین متاثر ہیں گواہی دیتے ہیں کہ بڑأ کامیاب کنونشن تھا۔ملک بھر سے جماعت کے کارکن اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ حاضر تھے۔۔سب کچھ انقلابی تھا۔۔۔موضوعات سے لے کر مقررین تک اور ادب سے لے کر شاعری تک۔۔۔کہتے ہیں کہ ایک عزم کا اظہار تھا بیانیہ تھا “بدلو نظام “۔۔۔اس کے بعد لازم ہے کہ اعترازات آتے۔۔کہ نظام کون بدلے۔۔۔کیسے بدلے۔۔لازم ہے کہ یہ ناممکن لگتا ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔۔ایک شفاف نظام،ایک واضح قانون پھر اس کی حکمرانی کی بات ہے۔۔پھر مہاکام ان افراد کی تربیت ہے جن کو کارکن کہا جاتا ہے جو کسی پارٹی کے نظریے،بیانیہ اور اصول کو فالو کریں۔۔مثلا ایک پارٹی کا نام تحریک انصاف ہے۔۔اس کی کامیابی اور مقبولیت اس وقت ممکن ہے جب اس کا ہر کارکن انصاف کا چمپین ہو۔۔وہ اپنی زات میں منصف ہو وہ قانون کا رکھوالا ہو اگر ایسا نہیں تو پارٹی مقبول نہیں ہوسکتی اسی طرح اگر جماعت اسلامی نظأم بدلنے کا دعوی کرے تو اپنے ہر کارکن کو اس کے لیے تیار کرے۔جماعت کا ہر فرد معاشرے کے لیے مثال ہو۔۔فرض کریں جماعت میں صرف دس افسر ہیں یہ اتنے اصول پرست،صاف و شفاف ہوں کہ لوگ ان کی مثالیں دیں کسی سکول میں کوئی استاذجماعت سے تعلق رکھتا ہو تو اتنی جانفشانی سے بچوں کے ساتھ محنت کرے کہ دوسرے اساتذہ کے لیے مثال بن جاۓ۔ اس کے شاگرد اسی کو رہنما سمجھیں گے۔۔کوئی ٹھیکدار جماعت کا کارکن ہو وہ اپنا کام اتنی ایمانداری سے کرے کہ مثال بن جاۓ۔۔اسی طرح زندگی کے ہر طبقے کے افراد کی مثال ایسی ہو۔۔صحابہ کرام رض اس لیے فرماتے تھے کہ اگر مسلمان ہونا ہے ہمیں دیکھو ہماری طرح ہونا۔نظام افراد سیبدلتاہے۔افراد کی تعداد کی نہیں معیار کی ضرورت ہے معیار فرد بناتا ہے۔بس ایک فرد۔۔اس کا تعارف ہوتا ہے۔۔۔تعارف واٸرل ہوتا ہے لوگ اس کو فالو کرتے ہیں۔۔نظام بدلنے کی بات مذاق بھی نہیں اس کے لییقربانی چاہیے ہوتی ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو نظام حیات نہیں سمجھااس لیے اکثر ذہن یہ کہتے تھکتے نہیں کہ مذہب اور سیاست الگ الگ چیزیں ہیں یہی وہ بنیادی خرابی ہے جہان سے نظام میں خرابی پیدا ہوتی ہے اللہ کے دیے ہوۓ نظام کے مقابلے میں انسان کابنایا ہوا نظام ناقص ہی ہوسکتا ہے۔جاعت اسلامی کا نعرہ اگر عمل کی شروعات ہو تو نظام کا بدلنا یقینی ہے۔اس کا کوئی فرد،جس شعبے میں جاۓ وہاں پراس جماعت کا نمائندہ تصور ہو لوگ اس کے کردار سے اتنے مطمین ہوں کہ اس کو مسیحاسمجھیں۔۔انصاف اس کی پہچان ہوں۔کھراپن،پاکیزگی،امانت داری،سچائی اور قانون کی پاسداری اس کی شناخت ہو۔۔لالچ،تمع،دولت اور شہرت کی ہوس،جاٸیداد بنانے کا شوق،جائز ناجائز میں تمیز نہ کرنا،بدعنوانی،اقربا پروری،رشوت ان سب برایٸوں سے پاک ہو تب جاکے ایک فرد ہی نظام بدل سکتا ہے۔جو لوگ جماعت اسلامی کو لیبل کے طور پراستعمال کرتے ہیں۔زاتی مفاد کو اڑے لاتے ہیں دنیاوی سیاست اور اقتدار پر خالصاسلامی نظام کو قربان کرتے ہیں وہ لوگ نظام بدلنے کی بات کریں تو یہ بس نعرہ ہی رہے گا۔اگر خود احتسابی سیاپنے أپ کو گزارے اللہ ان کی مدد کرے گا۔۔قران نے کہا۔۔
تم اپنے آپ اپنینفسوں کو بھول جاتیہو حالاںکہ تم کتاب (قران) پڑھتے ہو ۔۔