داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔کہا نی بہت پرا نی

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔کہا نی بہت پرا نی

پڑو سی ملک سے کا بینہ کے وزیر وں کی عجیب حر کتوں پر مبنی خبریں آگئیں تو مجھے ایک پرا نی کہا نی یا د آئی کہا نی ایک باد شاہ کے دربار کی ہے کہتے ہیں محمو د غز نوی نے منا دی کرا دی کہ کوئی ایسا شخص ہے جو خواجہ خضر سے میری ملا قات کرا دے اگر کوئی ہو تو در بار میں حا ضر ہو کر مجھے بتا ئے میں ان کو انعام و اکرم سے نواز دونگا کا فی دن گذر گئے کوئی نہیں آیا پھر ایک دن ایسا ہوا کہ ایک فقیر دربار میں حا ضر ہوا فقیر نے کہا میں خوا جہ خضر سے آپ کی ملا قات کرادونگا اس کے لئے مجھے چلہ کا ٹنا ہو گا اگر شا ہی خزا نے سے میرے با ل بچوں کے لئے ایک سال کا نفقہ دیا جا ئے تو میں جنگل میں جا کر اپنا چلہ شروع کروں گا بادشا ہ نے یہ شرط ما ن لیا فقیر کے اہل و عیا ل کو ایک سال کا نا ن نفقہ ملااور فقیر نے جنگل کی راہ لے لی سال بعد فقیر دربار میں حا ضر ہوا دربار میں اس روز وزراء اور درباریوں کے علا وہ ایک سفید ریش مہما ن بھی مو جود تھا فقیر نے دربار میں گڑ گڑا کر باد شاہ سے معافی ما نگی کہ میرا چلہ کا میاب نہیں ہوا خواجہ خضر کی تلاش میں نا کام رہا بادشاہ کو غصہ آیا کہ فقیر نے خواہ مخوا ایک سال ضا ئع کر دیا غصے کے عالم میں باد شاہ نے کو توال سے پو چھا بتاؤ اس کوکیا سزا دی جائے کوتوال نے کہا عالی جا ہ! اس کا سر قلم کر کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جا ئیں اور تما م ٹکڑے اس کے سر کے ساتھ زندان کے دروازے پر لٹکا دیے جا ئیں تا کہ سب کو عبرت ہو دربار پر خا موشی چھا گئی اتنے میں اجنبی مہمان نے کہا ”بہت خوب“ باد شا ہ قاضی کی طرف متو جہ ہوا قاضی سے پو چھا تم بتاؤ اس کی کیا سزا ہو نی چا ہئیے؟ قاضی سوچ میں پڑ گیا سوچ بچار کے بعد قاضی نے کہا حضور والا کے اقتدار کو دوام حا صل ہو سزا یہ ہے کہ اس کو خونخوار کتوں کے سامنے ڈال دیا جا ئے وہ اس کو زندہ نو چ نوچ کر اس کے گوشت اور ہڈیوں سے پیٹ کی آگ بجھا ئیں نمک حر ام کی یہی سزا ہو تی ہے دربار پر پھر خا مو شی طا ری ہوئی اس خا مو شی کو توڑ تی ہو ئی اجنبی مہما ن کی آواز آئی ”بہت خوب“باد شا ہ نے اپنے خا دم خا ص اور محبو ب خا ص حضرت ایاز کی طرف دیکھا اور پوچھا بتاؤ ایاز! اس فقیر کی کیا سزا ہو نی چا ہئیے؟ ایاز نے کورنش اور اداب بجا لا تے ہوئے کہا عا لی جا ہ! اس کو معاف کر دیا جا ئے کیو نکہ آپ کی سخا وت سے ایک سال تک بے چارے کے اہل و عیال کو نا ن نفقہ مل اور اس نان نفقہ سے آ پ کے خزا نے میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ آپ کے جا ہ و جلا ل میں مزید اضا فہ ہوا فقیر معا فی کا مستحق ہے سارے درباری ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اجنبی مہمان کی آواز گونجی ”بہت خوب“ اب اجنبی مہما ن کی طرف متو جہ ہو کر باد شاہ نے ان سے پو چھا اے مہما ن عزیز کیا و جہ ہے آپ نے پہلی دو سزاوں پر بھی ”بہت خوب“ کہا اب معا فی کی تجویز آئی تب بھی بہت خو ب کہا اس بہت خو ب کی وضا حت کرو یہ آپ کا تکیہ کلا م ہے یا اس کا کوئی مفہوم بھی ہے اجنبی مہما ن نے کہا حضور! مفہوم بھی ہے جا ن کی اما ن پا وں تو عرض کرو ں باد شا ہ نے اجا زت دی تو مہما ن گو یا ہوا عالی جا ہ! کوتوال کا باپ قصاب تھا اس نے اپنے آبا ئی پیشے کی منا سبت سے سر قلم کر نے اور جسم کے ٹکڑے کرنے کی تجویز دی میں نے بہت خو ب کہا قاضی کا باپ بادشاہ کے کتوں کا داروغہ تھا خو نخوار کتوں کی نگرا نی کرتا تھا اُس نے اپنے آبا ئی پیشے کی منا سبت سے فقیر کو خو نخوار کتوں کے آگے ڈا لنے کی تجویز دی، میں نے بہت خو ب کہا آپ کا خا دم خا ص یعنی ایاز سید زادہ ہے جدی پشتی سید ہے اس کے اجداد نے دشمنوں کو معا ف کیا خو ن کے پیا سوں کو آب زمزم پلا یا اس نے اپنے اجداد کے نقش قدم پر چل کر معاف کرنے کا مشورہ دیا میں نے کہا بہت خوب باد شاہ نے ایاز کی طرف دیکھا اور پوچھا ایاز! تم نے آج تک مجھے کیو نہیں بتا ئی کہ تم سید ہو؟ ایاز نے کہا عا لی جا ہ میں اس کو صیغہ راز میں رکھنا چاہتا تھا مہما ن نے میرا راز فاش کر دیا ہے میں بھی مہمان کا راز فاش کر تا ہوں یہی خواجہ خضر ہیں یہ سنکر باد شا ہ تخت سے نیچے اترا، مہما ن سے مصا فحہ کیا اور فقیر کو انعا مات و اکرا مات کے ساتھ رخصت کیا کہا نی کا سبق یہ ہے کہ شا ہی دربار وں اور حکومتوں میں عہدہ ملنا بڑی بات نہیں کسی کو بھی عہد ہ مل سکتا ہے بڑی بات یہ ہے کہ اپنے حسب نسب کے اعتبار سے کو ن اس عہدے کے تقا ضوں پر پورا اتر تا ہے انگریزوں کے دور حکومت میں ڈرائیو اور سپا ہی بھر تی کرنے سے پہلے اس کا شجرہ نسب معلوم کیا جاتا تھا۔