دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔محمد جاویدحیات۔۔۔’مقابلے کیامتحانات کے Mock انٹروز اورقومی زبان”

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔محمد جاویدحیات۔۔۔’مقابلے کیامتحانات کے Mock انٹروز اورقومی زبان”
مزہ أتاہے یہ دیکھ کرکہ مقابلے کے امتحانات کی تیاری کے لیے ہمارے قابل نوجوانmock انٹرویوز کی مشق کرتے ہیں انٹرویو لینے والے ان کی رہنما?ی کرتے ہیں ان کی کمزوریاں ان کو بتاتے ہیں یہ اپنی خامیاں دور کرکے حقیقی انٹرویو کی تیاری کرتے ہیں۔اپنے نوجوانوں کی صلاحیت دیکھ کر فخر ہوتا ہے مگر ان پر ترس بھی أتا ہے کہ وہ ماں کی گود سے جو زبان سیکھ أتے ہیں اس زبان کی کو?ی حیثیت نہیں ہوتی۔اس زبان میں ان کی صلاحیت جانچا نہیں جاتا۔وہ بات کرتے ہو? غیر کی زبان میں اجنبی ہی رہتے ہیں۔وہ ہچکچاتے ہیں اٹک جاتے ہیں اور چہرہ بتاتا ہے کہ ان پر ظلم ہورہا ہے۔انٹرویو لینے والوں کے چہرے پر بھی شرمندگی ہے وہ بھی خجل ہیں کہ وہ کسی غیر کی زبان بولنے پر مجبور ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جس بندے کو غیر کی زبان اچھی طرح آ? وہ کامیاب ہے جس کو نہ آ? وہ جتنی بھی صلاحیت رکھتا ہو ناکام ہے۔۔لیکن أگے مصیبت یہ ہے جس قوم کے ساتھ اس أفیسر کا رابطہ ہے اس کو غیر کی یہ زبان نہیں آتی۔اگر اس کو عوام کی خدمت کرنی ہے تو گوروں کی زبان اس کا کو?ی نہیں کام نہیں آ? گی۔۔بس دفتر میں اس کو انگریزی لکھناہے اور بڑھوں سے انگریزی بولنی ہے۔آخربد بختی اور غلامی کی اس سے زیادہ کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی زبان میں بات کرنے سے شرماتے ہیں اور مجبور ہیں کہ کسی دوسری زبان میں بات کی جا? اور اپنی صلاحیت منوا?ی جا?۔اس پر بہت ڈیبیٹ ہوا ہے۔دنیا کی آزاد قوموں کی مثالیں دی گ?ی ہیں کہ ترقی بھی کر رہی ہیں اور اپنی زبان کی حفاظت بھی کر رہی ہیں۔بیشک اس بات سے انکار بھی نہیں کہ جدید دنیا میں انگریزی زبان دنیا والوں کی مجبوری ہے یہ سا?نس ٹیکنالوجی اور میڈیا کی زبان ہے۔دنیا ایک عالمی گا?ں کی مانند ہے اس دنیا میں رہتے ہو? اس زبان کو سیکھنا لازم ہے لیکن اس کو ضرورت کی حد تک سیکھنا چاہیے جہان اس کی ضرورت ہو وہاں اس کا استعمال ہونا چاہیے لیکن ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم اس کو ایک شناخت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔یوں کہ جس کو انگریزی نہ آتی ہو وہ کسی کام کا اہل نہیں۔اس وجہ سے ہماری شناخت مٹ جاتی ہے۔قابلیت کا معیار اہلیت کی نشانی سمجھ بوجھ کی گیرنٹی انگریزی زبان ہے۔تہذیب کی سرخیل انگریزی زبان ہے۔۔معاشرے میں تعارف کی ردا انگریزی ہے۔بچوں کی ذہانت کا پیمانہ انگریزی ہے۔بڑا?ی کاراز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔۔ہمارے بچوں کو پہلے غیر کی زبان سیکھنی ہوتا ہے۔پھر اس میں موٹی موٹی کتابیں پڑھنی ہوتی ہیں پھر مقابلے کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے پھر انٹرویوں میں جاکر اپنی انگریزی سے پینل کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔لیکن پھر عوام کی خدمت کا موقع أ? تو یہ زبان اجنبی بن جاتی ہے۔البتہ غصہ کرنے ڈانٹ پلانے اور اپنی شان جتاتے وقت کام أتی ہے۔کیابرا تھا کہ اگر انٹرویو پینل دو چار جملے اردو کے بول کر اپنی زبان کی لاج رکھتے۔دیکھتے کہ ہمارے بچے اپنی زبان کا ادراک رکھتے ہیں کہ نہیں۔ان کی زبان لڑکھڑاتی تو نہیں۔۔اردو ہماری شناخت کہلاتی۔۔۔۔