داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔متوا زی اور غیر متوا زن
کہا جا تا ہے کہ سسٹم خر اب ہے کسی بھی نا انصا فی کی طرف تو جہ دلا ئی جا ئے تو جواب ملتا ہے کہ سسٹم خراب ہے کئی بار یہ بات سپریم کورٹ تک گئی کہ سسٹم کو کیسے ٹھیک کیا جا ئے عدالت عظمیٰ کے کئی فیصلے ریکارڈ پر ہیں ایک فیصلہ یہ بھی ہے کہ سر کا ری ملا زمین سسٹم کو چلا تے ہیں ان کی تنخوا ہوں میں تو ازن نہیں ہے مگر ہم اس کا دفاع کر تے آئے ہیں دفاع کرتے رہینگے سر کاری ملا زمین کے سکیل الگ ہیں عدلیہ کے سکیل الگ ہیں بنکوں کے سکیل الگ ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک ہی بینک میں بندوق لیکر 3سیکور ٹی گارڈ ڈیو ٹی دیتے ہیں ان میں سے ایک بینک کا ملا زم ہے وہ 55ہزار روپے تنخواہ لیتا ہے دوسرے دو سکیور ٹی گارڈ کسی پرا ئیویٹ ایجنسی کے ذریعے بھر تی ہو ئے ہیں ان کے کو 8ہزار روپے فی کس ما ہا نہ تنخواہ ملتی ہے بینک پر ڈاکہ پڑے تو یہ بھی جا ن پر کھیل جا تے ہیں بینک سے تنخوا ہ لینے والا اگر شہید ہو جا ئے تو اس کو شہدا ء کا پیکج ملتا ہے پرائیویٹ ایجنسی کے ذریعے آنے والا اگر جا ن دے دے تو بینک حکام دھیلہ بھی نہیں دیتے فاتحہ بھی نہیں پڑ ھتے ”یہ خو ن خا ک نشینا ن تھا رزق خا ک ہوا“ اخبار نویس نے لقمہ دیتے ہوئے اخبار کی دو خبروں کا حوا لہ دیا ایک صو بائی محکمے کے ذیلی دفتر میں 5لا کھ روپے ما ہا نہ تنخوا پر چیف ایگزیکٹیو افیسر رکھا گیا ہے ایک وفاقی محکمے نے اپنے ذیلی دفتر کے لئے 6لا کھ ما ہا نہ تنخوا ہ پر چیف ایگز یکٹیو افیسر رکھ لیا ہے حا لا نکہ گریڈ 21کے افیسر وں کو بمشکل 2لا کھ روپے تنخواہ ملتی ہے وہ نیا چیف ایگز یکٹیو افیسر ان کا ما تحت ہے اس کو بھی غیر متوا زن کے خا نے میں لکھ دیجئیے یہ زبان خلق کی باتیں ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سسٹم میں اس قسم کی بیرونی مدا خلت کی وجہ سے خرابی پیدا ہو ئی ہے ایک محتاط اندازے کے مطا بق اس وقت وفاق اور چاروں صو بوں میں 80چیف ایگزیکٹیو افیسر ما ر کیٹ سے لا ئے گئے ہیں ان کو جگہ دینے کے لئے 80افیسروں کو پوری تنخوا اور مرا عات کے ساتھ او ایس ڈی بنا کر کھڈے لائن کر دیا گیا ہے گو یا سر کاری خزا نے سے 80افیسروں کو ما ہا نہ 2لا کھ روپے فی کس گھر بٹھا کر دیا جا تا ہے جبکہ ما رکیٹ سے لا ئے گئے چیف ایگز یکٹیو، ایم، ڈی اور دیگر افیسروں کو اوسطاً 20لا کھ روپے فی کس ما ہا نہ ادا کیا جا تا ہے ان کی تعداد بھی 80ہے یہ و ہ مقام ہے جہاں سے سسٹم میں دراڑ آجا تا ہے اندرونی کہا نیوں سے جو اخبار نویس با خبر ہیں وہ کہتے ہیں کہ چیف ایگز یکٹیو بننے والوں کی تنخوا ہیں 5لا کھ سے لیکر 75لا کھ تک مقرر کی جا تی ہیں بعض معا ملا ت میں بات کروڑ سے بھی اوپر جا تی ہے یہ ایک متوا زی اور غیر متوا زن نظام ہے جو سسٹم کو متا ثر کرتا ہے جب ایک افیسر دیکھتا ہے کہ اس کی تنخوا دو لا کھ روپے سے کم ہے جبکہ اس کا ما تحت 75لا کھ روپے ما ہا نہ لے رہا ہے تو وہ سسٹم سے بدد ل ہو جا تا ہے کام سے ہا تھ کھینج لیتا ہے اور اُس پر سسٹم کی خرابی کا طعنہ چسپان ہو جاتا ہے سسٹم کیا ہے؟ یہ قوانین اور قواعد و ضوابط کا مجمو عہ ہے جن پر عملدر آمد کے لئے حکومت نے تر بیت یا فتہ افیسروں کی ٹیم رکھی ہو ئی ہے افیسراس سسٹم کا ہارڈ وئیر ہے قاعدہ، قا نون اس کا سافٹ وئیر ہے دو نوں مل کر سسٹم بنا تے ہیں یہ لا زم نہیں کہ ہر بات کے لئے تا ریخ کو کھنگا لا جا ئے تا ہم یہ ضروری ہے کہ خرابی کی ڈوری کا سرا ڈھونڈ نے کے لئے ما ضی پر نظر دوڑ ائی جا ئے اکتو بر 1958ء میں فیلڈ مار شل محمد ایوب خا ن کی حکومت آنے سے 3ما ہ پہلے 303افیسروں کی فہرست بنا ئی گئی ان کو ”قانون کا کیڑا“ کہا گیا فیلڈ مار شل نے حکومت میں آنے کے بعد 303افیسروں کو نو کر ی سے بر خواست کر کے جبری ریٹائر کیا یہ دیا نت دار، ایماندار اور قا بل افیسروں کا گروپ تھا جس کو نا پسند قرار دے کر راستے سے ہٹا یا گیا اس کے بعد ملک میں بد عنو ا نی اور اقربا پروری کی بنیا د یں مضبوط ہو ئیں آج بھی سسٹم کے اندر وہی دراڑ مو جو د ہے اس دراڑ کو پختہ کر نے کے لئے مار کیٹ سے CEOاور MDلا ئے جا تے ہیں سسٹم کو مضبوط کر نے کے لئے کچھ نہیں کیا جا تا یہ ہمارے سسٹم کا المیہ ہے جو متوازی اور غیر متوا زن کی بنیا د پر قائم ہے۔