۔
چترال (نما یندہ چترال میل) چترال میں گیس پلانٹ منصوبے کو ختم کرنے اور گلگت بلتستان منتقل کرنے کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام ضلع چترال کے دعوت پر منعقدہ آل پارٹیز میں فیصلہ ہوا کہ 2مارچ کو چترال کے مختلف علاقوں میں احتجاجی جلسے منعقد کرنے کے ساتھ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی اور صوبائی دارلحکومت پشاور میں مولانا ہدایت الرحمن کے زیر قیادت پریس کلبوں کے سامنے مظاہر ہ اور پریس کانفرنس کرکے اس مسئلے کو قومی سطح پر اجاگر کیا جائے گا۔ جے یو آئی کے امیر اور سابق ایم پی اے مولانا عبدالرحمن کے زیر صدارت اجلاس میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی جن میں ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترال کے علاوہ جے یو آئی کے قاری جمال عبدالناصر، قاضی نسیم، قاری فدا، جماعت اسلامی کے مولانا اخونزادہ رحمت اللہ، وجیہ الدین، جہانزیب، عرفان عزیز، اے این پی کے الحاج عیدالحسین، ایم آئی خان سرحدی ایڈوکیٹ، ڈاکٹر سردار احمد، رحمت علی شاہ، مسلم لیگ (ن) کے عبدالولی خان ایڈوکیٹ، ساجد اللہ ایڈوکیٹ، محمد کوثر ایڈوکیٹ، صفت زرین، حاجی شیر حکیم، پی پی پی کے محمد حکیم ایڈوکیٹ، تجار یونین کے صدر شبیر احمد خان، شیخ صلاح الدین، ڈرائیور یونین کے صابر احمدا ور چترال اور چترال ڈیویلپمنٹ مومنٹ کے چیر مین وقاص احمد ایڈوکیٹ نے شرکت کی۔ اس موقع پر مزید فیصلہ ہواکہ حکومت کی طرف سے فیصلہ واپس نہ لینے کی صورت میں 15مارچ کو اپر اور لویر چترال کے اضلاع میں مکمل پہیہ جام ہڑتال ہوگی اور تمام تعلیمی ادارے، دفاتر اور بازار بند کئے جائیں گے۔ اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں گیس پلانٹ منصوبے کی منتقلی کے خلاف پیٹیشن دائر کرنے پر سابق ایم این اے شہزادہ افتخار الدین کا خصوصی شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ان کو اہالیان چترال کی طرف سے ہرممکن تعاون کا یقین دلایا گیا۔ ایم این اے مولانا عبدالاکبرچترالی نے گیس پلانٹ منصوبے کی بحالی کے لئے اسمبلی کی فلور پر کئے گئے اپنی جدوجہد کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا اور کہاکہ اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف وہ چترالی عوام کو لے کر کسی بھی لیول پر احتجاج کے لئے تیار ہیں اور وہ قانونی جنگ بھی لڑیں گے۔ اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر زور دیاکہ گیس منصوبہ محض چند سیاسی جماعتوں یا افراد کا مطالبہ نہیں بلکہ علاقے میں بچے کھچے جنگلات کو بچانے کے لئے اس منصوبے کو بحال کرنا ناگزیر ہے اور حکمران جماعت کی قیادت کا اس مطالبے میں شامل نہ ہونا افسوسناک ہے۔