داد بیدا د۔۔۔بار۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چیف جسٹس گلزار احمد نے ایک مقدمے کی کاروائی کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بار اور بنچ دونوں ایک ہیں مقدمہ اسلا م اباد کی کچہری میں وکلا کے چیمبر گرانے کے سر کاری حکم کو کالعدم قرار دینے کے لئے دائر کیا گیا ہے اس حکم کے خلا ف وکلا ء نے احتجاج کر کے اسلام اباد ہائی کورٹ پر حملہ کیا تھا اس حملے کے نتیجے میں کئی وکلا کو گرفتار کر کے جیل بھیجدیا گیا ہے اور سپریم کورٹ تک اس حوالے سے گرما گرمی اور گہما گہمی دیکھنے میں آرہی ہے جب بھی کوئی جج ریٹائر ہوتا ہے فل کورٹ ریفرنس ہو تی ہے یا وکلاء کی تنظیموں کی کوئی تقریب ہو تی ہے اس میں یہ بات تواتر کے ساتھ کہی جا تی ہے کہ بار اور بنچ میں چولی دامن کا ساتھ ہے دونوں ایک ہی میزان کے دوپارٹ ہیں جہاں بھی اور جب بھی انصاف کا ذکر آتا ہے عدالت کا نا م آتا ہے جج کے ساتھ وکیل کا نا م لازماً لیا جا تا ہے جن مما لک میں انصاف کا عادلانہ نظام قائم ہے وہاں وکا لت کو نفع بخش پیشہ نہیں سمجھا جا تا کیونکہ عدالتوں میں ہر مقدمہ دو چار پیشیوں کے بعد فیصلہ ہو جا تا ہے اور اتنی سرعت کے ساتھ مقدمات کے فیصلے ہو رہے ہوں تو وکلا ء کا زیا دہ وقت فارغ گذر تا ہے انگلینڈ، امریکہ اور جر منی میں وکلا ء کے دفاتر بہت کم نظر آتے ہیں اور جہاں وکلا ء کے دفاتر ہیں ان میں سٹیشنری، پوسٹ کارڈ، فوٹو گرافی کا سامان، فون کارڈ وغیرہ بھی ساتھ ساتھ بکتے ہیں صرف وکا لت سے دفتر کا کرایہ بھی ادا نہیں ہو تا ان مما لک میں عدالتوں کا زیا دہ کام میو نسپل کمیٹیوں کے ذریعے نمٹا یا جا تا ہے، پو لیس سٹیشنوں میں بھی صلح صفا ئی کے ذریعے مقدمات کو ختم کرنے کا طریقہ کار مو جو د ہے پا رلیمنٹ کی خصو صی کمیٹی بھی مقدمات نمٹا نے کا کام کر تی ہے اس لئے مقدمات کا سارا بوجھ وکیلوں اور ججوں پر نہیں ہو تا وطن عزیز پا کستان کا عدالتی نظام برٹش نو آبادیا تی دَور کا تسلسل ہے پڑوسی ملک میں یہ نظام کا میا بی سے چل رہا ہے ہمارے ہاں اب تک اس کو کامیا بی سے چلا نے کی نو بت نہیں آئی اس کی بے شمار وجو ہات ہیں سیا سی عدم استحکام، فو جی حکومتوں میں عدالتوں کی بار بار تو ہین، سیا سی مقدمات کی بھر مار کو نما یاں وجو ہات قرار دیا جا تا ہے ماتحت عدالتوں میں مقدمات کی تعداد کے مقا بلے میں ججوں کی تعداد بہت کم ہو تی ہے ایک جج کو ہرروز 35مقدمات سننے پڑتے ہیں 35مقدمات کو اگر 8گھنٹوں پر تقسیم کیا جا ئے تو ایک گھنٹے میں 4مقدمات سے بھی زیا دہ کی تعداد بنتی ہے ایک مقدمے کو اگر 15منٹ مل جا ئیں تو نہ شہا دت ہو سکتی ہے نہ بحث کی نو بت آتی ہے اس لئے 33مقدمات اگلی تاریخ کے لئے مقرر کر کے ایک مقدمے میں شہادت اور ایک مقدمے میں بحث کی گنجا ئش نکا لی جا تی ہے اگر عمو می طور پر دیکھا جائے تو ما تحت عدالتوں میں فیصلوں کا معیار بہت اچھا ہو تا ہے خصوصاً فوجداری مقدمات میں قا تلوں کو سزائے مو ت سنا ئی جا تی ہے مگر اپیل کے مر حلے میں جا کر قاتل سزائے موت سے چھوٹ جا تے ہیں بعض کو عمر قید کی سزا ہو تی ہے بعض کو شک کا فائدہ دے کر رہا کیا جا تا ہے یہ عمل شہریوں میں بد اعتما دی کا سبب بنتا ہے عدالتوں پر سے عوام کا اعتما د اُٹھ جا نے کا سبب بنتا ہے قانونی حلقوں میں دو متضا د مقولے ہر وقت گردش میں رہتے ہیں کچھ لو گ کہتے ہیں کہ دیر سے انصاف ملنا انصاف نہ ملنے کے برا بر ہے،اس کے مقابلے میں دوسرا مقولہ یہ ہے کہ انصاف میں جلدی کرنا انصاف کو مٹی میں دبا نے کے مترادف ہے اسلام اعتدال کا دین ہے اسلا م میں عدل ہے اور عدل کا تقا ضا یہ ہے کہ انصاف میں ضرورت سے زیا دہ تاخیر بھی نہ ہو ضرورت سے زیا دہ جلدی بھی نہ ہو انصاف وہ ہے جو بر وقت ملے، آسانی سے ملے اور سب کو ملے ایک مشہور لطیفہ ہے جج نے بوڑھے ملزم سے پو چھا تمہاری کیا عمر ہے؟ ملزم نے کہا میری عمر 80سال ہے جج نے کہا اس عمر میں جواں لڑ کی کو چھیڑ تے ہوئے تم کو شرم آنی چاہئیے ملزم نے کہا جناب عالی!یہ 60سال پرانا مقدمہ ہے آج وہ لڑ کی بھی بڑھیا ہو چکی ہے پو تے اس کو لیکر پیشی کے لئے آئے ہیں جس وقت چھیڑ چھاڑ ہوئی میں 20سال کا تھا وہ 16سال کی تھی جج نے فائل کو الٹ پُلٹ کر دیکھا تو بوڑھے کی بات سچ نکلی دونوں میں صلح کر واکر مقدمے کو نمٹا دیا ایسے 60سالہ مقدمے عدالتوں کا وقار بھی مجروح کر تے ہیں وکیلوں پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں اس لئے چیف جسٹس نے صاف بات کہی ہے بنچ اور بار دونوں ایک ہی ہیں دونوں کی عزت ایک ہے دونوں کا وقار ایک ہے تا ہم سر سری نظر سے دیکھنے والوں کو دونوں الگ نظر آتے ہیں بقول ابراہیم ذوق ؎
لخت دل اور اشک تر دونوں بہم دونوں جدا
ہیں رواں دو ہم سفر دونوں بہم دونوں جدا