دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”خدائی درد سر ہے“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”خدائی درد سر ہے“
”خدائی درد سر ہے“
دنیا کی تاریخ کا ورق ورق پڑھا جائے تو عجیب حکمران گزرے ہیں۔فرعون رمعسیس ثانی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اپنی حکمرانی کے پہلے دور میں انصاف کرتا تھا اس لیے سکون سے حکومت کی۔۔پھر حد بندگی سے گزرے تو آقا کی پکڑ آگئی۔۔پھر سیزر قاچار کسری قیصر حاقان اور دنیا نے کتنے زبردستوں کو دیکھا لیکن فنا سب کے لیے تھا۔۔مسلمانوں کا دورآیا تو انسانیت اپنی معراج کو پہنچی۔۔دنیا نے ان انصاف حق صداقت ترقی خوشحالی کو اپنے عروج پہ دیکھا۔۔عہد فاروقی انسانیت کی تاریخ میں سند ہے دنیا کے عظیم حکمران عہد فاروقی کو اپنی منزل اور مثال بناتے رہے۔۔۔حکومت کرنا آسان کام نہیں۔۔۔یہ اہتمام خشک وتر ہے۔۔اس سے لوگ بھاگتے رہے۔۔۔وہ لوگ جو قیامت اور حساب کتاب پہ یقین رکھتے ہیں۔۔۔اسی فاروق اعظم نے رب کے حضور دُعا کی۔۔۔آقا اب بس بھی کروں میری کمر جھک گئی قوی جواب دے گئے اب مجھے اٹھا میں حکمرانی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔۔ان کو حساب کتاب کا خوف تھا۔۔حکمرانی مذاق تھوڑی ہے۔۔۔اپنے آپ کو قربان کرنا پڑتا ہے اپنی خواہشات تج دینے پڑتے ہیں۔۔اپنوں سے لڑنا پڑتا ہے۔۔۔اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھوں کوڑے لگانے پڑتے ہیں۔۔تب جا کے حکمرانی ممکن ہوتی ہے۔۔بندہ اپنا گھر نہیں سنبھال سکتا۔ اپنے دو چار بچوں کو اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتا۔۔پورا ملک سنبھالنا آسان کام نہیں۔حضرت امام اعظم کو چیف جسٹس کے عہدے کی پیش کش ہوئی۔۔۔آپ نے انکار کیا حکمران وقت کے سامنے کہا میں اس کا اہل نہیں ہوں۔۔حلیفہ منصور نے دھاڑ کر کہا تم جھوٹ بولتے ہو۔۔۔اس نے کہا حضور آپ نے خود فرمایا کہ میں جھوٹا ہوں۔۔۔جھوٹا چیف جسٹس نہیں بن سکتا۔۔اس کو کوڑے مارے گئے وہ جیل میں چل بسا لیکن لوگوں کے حقوق کا بوجھ اپنے سر نہیں لیا۔عمر بن عبد العزیز اپنے خاندان سے ٹکرایا بیوی سے کہا۔اپنے زیورات بیت المال میں جمع کردو ورنہ اپنے میکے چلی جاؤں۔۔۔آخر کتنی قربانی دینی پڑتی ہے۔۔۔حکمرانی درد سر ہے۔۔ایک سچے حکمران کو پل پل آزمایش کا سامنا ہوتا ہے۔۔ڈاکووں لٹیروں سے واسطہ پڑتا ہے۔۔ان کی قربانی دینی ہوتی ہے۔ان پر قانون لاگو کرنا ہوتا ہے ان کے دھندے ختم کرنے ہوتے ہیں۔ان کی ٹانگیں کاٹنی پڑتی ہے۔۔۔تب جا کے حکمرانی ممکن ہوتی ہے۔۔اس کے لئے ایسے مرد اہن کی ضرورت پڑتی ہے۔۔جو سب ممکنہ قربانیاں دے سکے۔۔ملک خداداد میں ایسی مثالی حکمرانی کبھی نہیں آئی۔۔۔سب اپنی ذات کے خول سے باہر نہیں نکل سکے۔بعض تو حکمرانی کو جمہوریت کے نام پہ اپنے خاندان تک کھینچ لائی اور جمہوری اقدار تک مٹا کے رکھ دیا۔پارٹی افراد میں پھنس کے رہ گئے۔۔۔اب غریب انگشت بدندان ہے ان کو کہا جا تا ہے کہ پاکستان کا کوئی آئین بھی ہے لیکن سیاسی مستنڈے اس سے بالا تر ہیں۔۔نتیجہ نکلتا ہے کہ آئین کہیں نہیں۔۔کہا جاتا ہے کہ ملک میں عدلیہ ہے۔۔لیکن ”بڑے“اس سے بالا تر ہیں ظاہرہے عدلیہ کوئی نہیں۔۔اسمبلیوں میں جاؤ تو وہی کھیلاڑی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کی تقدیر میں کھوٹ ہے۔وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ حکومت کے لیے تیاری کرنی تھی یہ آسان کام نہیں معنی رکھتا ہے۔۔۔اس کو پہلے سے احساس ہونا چاہیے تھا کہ مہرے بدلنے سے کھیل کا پھانسہ پلٹتا نہیں بساط لپیٹنا پڑتا ہے۔۔لگتا ہے ملک میں لٹیروں کا ایک گروپ ہے۔۔یہ ٹولہ سوچے سمجھے لوگوں کو پریشان کرتے ہیں ان کو اپنی مفاد سے کام ہے ان کو کبھی کسی کی فکر نہیں رہی۔اگر وزیر اعظم میں ایثار و قربانی کی جرات ہوگی تب طرز حکمرانی بدلی جا سکتی ہے۔۔خود بیلٹ پروف ڈسٹ پروف ایئر کنڈیشنڈ اور آرام دہ گاڑی میں بیٹھ کر کچی سڑکوں میں ہچکولے کھاتی ٹیکسی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔۔اپنے محل میں بیٹھ کر انواع و اقسام کے کھانے کھا کر بھوک اور فاقے کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔قیمتی گرم کپڑوں میں کڑاکیکی ٹھنڈ کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔اس لیے قربانی دینی ہوتی ہے۔۔اپنے اور ان مجبوروں کے درمیان فاصلہ رکھینگے تو حکمرانی ناممکن ہے۔اس لئے اس کی تیاری کے لیے خلوص چاہیے۔۔قربانی اور درد چاہیے۔۔ان مگرمچھوں کو کچلنا ہوگا جن کاغریبوں کے اس سمندر میں راج ہے ان اژدھوں کو کرش کرنا ہوگا جو اس خزانے کے اوپر سوئی ہوئی ہیں۔۔حکمرانی بے فکری کا نام نہیں سارے جہان کا درد اپنے سینے میں چھپانے کا نام ہے۔ بے جا افہام و تفہیم نے ہمارا بیڑاغرق کردیا ہے قانون کا شکھنجا کہیں نہیں۔جو کم از کم اچھا کرتاہے اس کا پتہ نہیں جو سراسر بُرا کرتا ہے اس کی تعریفیں ہیں۔۔۔زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے۔۔اللہ ہمارے لیے آسانی کا فیصلہ کرے۔۔۔۔