دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، ‘ کویڈ کا نزلہ صرف ہم پہ گرتا ہے ”

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، ‘ کویڈ کا نزلہ صرف ہم پہ گرتا ہے ”

، ‘ کویڈ کا نزلہ صرف ہم پہ گرتا ہے ”
دسمبر 2019ء کو کوید کا پہلا حملہ چین میں ہوا۔انسانیت اس طوفان کے آگے دیوار بنتی رہی دیوار گرتی رہی لیکن اس کی شدت کم ہوء۔زندگی معمول پر آگء۔احتیاطی تدابیر کا ویویلہ کیا گیا۔۔عوام و خواص سے اپیلیں کی گئں۔دنیا کی باتدبیر قوموں نے احتیاط اپنا فرض سمجھا ہم جیسوں نے لا پرواہی کی انتہا کر دی حکومت کی طرف سے ہر قسم کی اجتماعات سرگرمیوں وغیرہ پر پا بندی کی باتیں ہوئں۔۔لاگڈاون ہوا۔۔لیکن اس کویڈ کا سب سے بڑا نزلہ تعلیمی اداروں پر پڑا۔۔اٹھ مہینے ادارے بند رہے بچوں کی تعلیم و تربیت تباہ و برباد ہو گء۔پچھلے دو مہینوں سے سخت sops کے تحت ادارے کھولے گیے تھے محکمے نے بڑی محنت اور جانفشانی سے کریکلم ترتیب دی تھی۔۔اساتذہ کے لیے خصوصی ٹرینگ کا اہتمام شیڈیول تھا۔سارے انتظامات کیے گیے تھے۔۔سکولوں کے اندر سنیٹایزر ماسک باہمی فاصلہ سب پر سختی سے عمل ہو رہا تھا بچے دو دو شفٹوں میں سکول آرہے تھے اساتذہ مطمین تھے۔۔والدیں بھی خوش تھے۔۔اب پھر کویڈ کی لہر آء تو اس کا نزلہ ہم پہ یعنی تعلیمی اداروں پہ گرا۔۔دوسری سرگرمیوں کی پرواہ بھی شاید کم ہو۔۔احتیاط بھی ان کے لیے اہم نہ ہوں۔لیکن قوم کے بچوں کی فکر سب کو ہے۔۔وہ گھروں میں محفوظ رہیں گے۔۔لیکن سوال ہے کہ کیا گھروں میں صرف بچے رہتے ہیں۔۔کیا ان کے بڑے گھروں سے باہر نہیں جاتے۔۔سوال ہیاگر کسی بچے کا باپ کسی جلسے میں جاے وہ واپس گھر نہیں آے گا۔۔کیا کسی بچے کا باپ بازار میں دکان نہیں کرتا وہ شام کو گھر نہیں لوٹتا۔۔اور بہت سارے سوالات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کویڈ کا حملہ بوڑھوں اور پہلے سے بیماروں پہ زیادہ ہوتا ہے۔۔ما شا اللہ سے ہمارے نویں دسویں کے بچے اس کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں۔کالج کے بچے اس کے خلاف لڑ سکتے ہیں۔۔یہ ایک گلدستہ اور بہت کارآمد دستہ ہے۔۔یہ اداروں ہی میں sops پر عمل نہیں کرتے بلکہ یہ ان پہ عمل کراتے بھی ہیں۔وہ اپنے گھروں میں بازاروں میں گلی کوچوں میں ایک ہراول دستے کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔۔ہمارے ہاں ایسے تعلیم یافتہ گھرانے نہیں ہیں کہ بچوں کو گھروں میں تعلیم و تربیت میں مصروف رکھ سکیں اور نہ آن لاین اور ٹیلی سکول کا میاب ہو سکتا یے۔۔کویڈ تعطیلات سے واپسی پر ہم نے ٹسٹ لے کے دیکھا کہ نوے فیصد بچے تعلیمی لحاظ سے بہت متاثر ہوکے آے تھے۔اب پھر سے سکول بند ہوے۔۔یہ بچے تعلیم و تربیت سے محروم رہ جاینگے۔۔اگر پرائمری کے بچوں کو گھر بھیج کے باقی سخت sops کے تحت سکولوں میں رکھا جا تا تو اتنا مسلہ نہ ہوتا۔اللہ ہر مشکل آسان کر دیتا ہے اگر بادی النظر میں دیکھا جا ے تو ہمارے بچے سکولوں میں زیاد محفوظ تھے۔۔اب یہ بچے گلی کوچوں میں کھیلینگے۔کھیل کے میدانوں میں جاینگے کیونکہ دیہاتی علاقوں میں دھڑا دھڑ ٹورنمنٹس ہو رہے ہیں ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم دے یہ آفت ہٹا دے۔۔ہم مجبور ہیں۔۔