داد بیداد ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔۔قو می مکا لمہ

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔۔قو می مکا لمہ
قو می مکا لمہ
خبریں گردش کر رہی ہیں کہ سیا سی میدان میں وسیع البنیاد قو می مکا لمہ شروع کر نے کے لئے مشورے ہو رہے ہیں ظا ہر ہے یہ مشورے ضرور پر دے کے پیچھے ہو رہے ہیں مشورے میں دو غیر ملکی سفیروں کے ساتھ ملکی اداروں کے طا قتور نما ئندے بھی بیٹھتے ہیں سیا سی لو گوں کو بھی مشورے میں شریک کیا جا رہا ہے ظا ہر ہے یہ سب کچھ خفیہ ہو رہا ہے پھر بھی خبریں چگنے والے پر ندے خبریں چک لیتے ہیں کہیں سے چڑیا کے چوں چوں کی آوا ز آتی ہے کہیں سے کوا کائیں کائیں کر کے خبر دے رہا ہے انگر یزی میں اس کا نام گرینڈ نیشنل ڈائیلا گ رکھا گیا ہے ابھی تک اس کے جو خدو خال سامنے آئے ہیں وہ حو صلہ افزا نہیں ہیں حزب اختلاف مکا لمے پر آما دہ ہے حکومت مکا لمے کے لئے تیا ر نہیں کہتے ہیں ایک سادہ لو ح کسان سب سے مبا رکباد وصول کرتاتھا اور کہتا پھر تا تھا میری شادی ہو رہی ہے جب دن مہینوں میں اور مہینے سا لوں میں بدلنے لگے شادی نہیں ہوئی تو کسی نے پو چھا بھا ئی مسئلہ کیا ہے اُس نے روا یتی سادہ لو حی سے کہا مسئلہ کوئی نہیں میں شادی پر رضا مند ہو ں صرف لڑ کی نہیں ما نتی یہاں بھی وہی مسئلہ ہے غیر متعلقہ لو گ مکا لمے پر رضا مند ہیں جس کے ساتھ مکا لمہ ہونا ہے اُس نے اب تک رضا مند ی نہیں دکھا ئی وسیع البنیاد پر جون ایلیا نے پوری غزل کہی ہے غزل کا مطلع ہے ؎
نہیں بنیاد کی کوئی بنیا د
یہی با با الف کا ہے ارشاد
قو می سیا ست کی مثال عرب بدو کے اونٹ کی طرح ہے بدو نے ایک دن اونٹ کو سر سے پاوں تک دیکھا اُس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے اونٹ سے پو چھا ”اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی“ قو می سیا ست کے تین پہلو ہیں اور تینوں پہلو ٹیڑھے ہیں اس کا پہلااور بنیا دی پہلو حکومت ہے اس کا دوسرا پہلو حزب اختلاف ہے اور اس کا تیسرا پہلو عد لیہ کا مصا لحتی کر دار ہے انڈو نیشیا اور بنگلہ دیش میں جب بھی سیا سی مسا ئل گھمبیر صورت اختیار کرتے ہیں عدلیہ درمیان میں آجا تی ہے فریقین کو ایک میز پر لاتی ہے اور ملکی آئین کی رو سے کوئی حل نکا ل لیتی ہے بعض مما لک میں آئین کے اندر صدر مملکت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سیا سی تعطل کو دور کر نے کے لئے کر دار ادا کر ے پا کستان میں مار چ 1977ء کے بعد سیا سی تعطل آیا صدر فضل الٰہی چوہدری کچھ نہ کر سکا تو من چلوں نے اسلا م اباد کی دیوار وں پر چا کنگ کرتے ہوئے مطا لبہ دہرا یا فضل الٰہی چوہدری کو رہا کیا جائے اسی تنا ظر میں جنرل ضیا ء الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے آئین میں 58(2) بی کا ایک دفعہ شامل کر کے صدر کو اسمبلیاں توڑ نے کا اختیار دیا اس اختیار کے تحت ایک بار ضیا ء الحق نے دوبار غلا م اسحا ق خان نے اور ایک بار فاروق احمد خا ن لغا ری نے اسمبلیوں کو توڑ کر سیا سی تعطل کا خا تمہ کیا ستر ھویں تر میم میں آئین کا وہ دفعہ اڑا دیا گیا اب آئین میں سیا سی تعطل کو دور کرنے کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے ہماری عدلیہ نے سیا سی تعطل کو دور کر نے میں کبھی کردار ادا نہیں کیا جب تعطل پیدا ہوا مجبوری کی حا لت میں پا ک فو ج کو آگے آکر ملک کا نظم و نسق سنبھا لنا پڑا مو جو دہ حا لات میں حکومت اور حزب اختلاف جمہوریت کے دو پہئیے ہیں مگر ایک پہئیے کا رخ شمال کی طرف ہے دوسرے پہئیے کا رخ جنوب کی طرف ہے اس لئے جمہوریت نہیں چل رہی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیاں سیا سی اختلاف نے ذاتی دشمنی کی صورت اختیار کر لی ہے قائد خزب اختلاف اور قائد ایوان ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کے روا دار نہیں اپو زیشن جما عتوں کے رہنما وں کے ساتھ حکومتی اہلکار کسی بھی میز پر اکھٹے ہو نے پر آما دہ نہیں جمہو ری مما لک میں سیا ست کو وکا لت کے پیشے سے تشبیہہ دی جا تی ہے جس طرح وکلا ء عدا لتوں میں ایک دوسرے کے مقا بل ہوتے ہیں ایک دوسرے کو پنجا دکھا نے کے لئے دلا ئل اور قا نونی نکا ت کے انبار لگا دیتے ہیں لیکن عدالت سے با ہر نکل کر آپس میں گہرے دوست بن جا تے ہیں اس طرح جمہوری ملکوں کے سیا ستدان بھی اسمبلی میں ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کے لئے دھواں دھا رتقریریں کر تے ہیں مگر اسمبلی سے با ہر آکر یک جان و دو قالب ہو تے ہیں گہرے دوستوں کی طرح مل بیٹھتے ہیں مل جُل کر عوام کے مسا ئل حل کرتے ہیں اور مل جُل کر ملک کے لئے پا لیسیاں بنا تے ہیں ان کے اختلافات اسمبلی کے ایوان تک محدود رہتے ہیں وہ کسی بھی وقت کسی بھی قو می مسئلے پر قو می مکا لمہ کر سکتے ہیں ہمارے ہاں سیا ست کو ذا تی دشمنی اور خا ندا نی عداوت کا جا مہ پہنا یا گیا ہے عدا وت اور دشمنی میں قو می مکا لمہ نہیں ہونا یہ ہوائی کسی دشمن سے اڑا ئی ہو گی۔