چترال(نمائندہ چترا ل میل) جمعہ کے روز چترال کے پُرانہ پی آئی اے چوک میں مسلم لیگ ن تحصیل چترال کے صدر محمد کوثر ایڈوکیٹ کی صدارت میں قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف اور اُس کے خاندان مریم نواز سمیت دیگر قائدین کے حق میں احتجاجی جلسہ کا اہتمام کیا گیا۔ جلسے میں میاں محمد نواز شریف پر مقدمات کا خاتمہ کرنے اور از سرنو صاف شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا گیا۔جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے چترال کے لئے میاں محمد نواز شریف کے جاری پراجیکٹ کی بندش پر شدید احتجاج کیا جس میں سی پیک لنک روڈ،مسئلہ شندور،گیس پلانٹس کی بندش،گولین گول ہائیڈل کے معاملات میں غفلت،مہنگائی بے روزگاری پر شدید احتجاج کیا۔جلسے سے خطاب میں صدر تحصیل محمد کوثر ایڈوکیٹ،صفت زرین،عبدالولی خان ایڈوکیٹ،ساجد اللہ ایڈوکیٹ،جمعیت علماء اسلام کے مولانا سمیع،جماعت اسلامی چترال کے قیم مولانا اسرار الدین الہلال نے میاں محمد نواز شریف پر قائم مقدمات کی واپسی کا مطالبہ کیا اور چترال کے ساتھ پی ٹی آئی کی حکومت کی ناانصافی پر شدید احتجاج اور ملک میں عدم استحکام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔آخر میں متفقہ طورپر ذیل قرارداد پیش کیا گیا۔
1۔ قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف،صدر شہباز شریف،نائب صدر مریم نواز سمیت تمام لیگی رہنماؤں کے خلاف میڈیا ٹرائل ازیں بعد ارشد ملک جیسے ججوں کے ذریعے قومی قیادت کو پابند سلاسل کرنے پر احتجاج کیا گیا۔اور لیگی قائدین کے خلاف تما م جعلی مقدمات
ختم کرکے اُن کے رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
2۔ میاں محمد نواز شریف کے دور کے جاری کردہ پراجیکٹز چکدرہ ٹو شندور سی پیک لینک روڈ کوختم کرنے کو موجودہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور فی الفور بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
3۔گولین ہائیڈل پراجیکٹ سیلاب سے متاثر ہوئے مہینوں گذر چکے ہیں مگر واپڈا کی جانب سے غفلت برتنے کیوجہ سے اربوں روپے کا یہ پراجیکٹ مکمل بند ہونے اور چترال پھر سے اندھیروں میں ڈوبنے جارہاہے۔جوکہ ایک بہت بڑا ناقابل تلافی ملکی نقصان ہے۔حکومت وقت سے مطالبہ کیا گیا کہ گولین گول ہائیڈل پراجیکٹ کی طرف فی الفورتوجہ دیتے ہوئے مذکورہ پراجیکٹ بحال کرے۔اور سو ویلج کونسل تک بجلی کی ترسیل یقینی بنائے۔
4۔میاں محمد نواز شریف کا گیس پراجیکٹ جسکا باقاعدہ افتتاح سابق وزیراعظم خاقان عباسی کے ہاتھوں ہونے کے بعد زمین بھی ایکوائر کیا جاکر ٹینڈر بھی کیا جاچکا تھا۔ اور ایک اندازے کے مطابق 2020کے اوائل میں چترال کے عوام اس سے استفادہ کرنے والے تھے۔مگر تبدیلی سرکارنے دوسالوں سے اس گیس پلانٹ پراجیکٹ کیطرف توجہ نہیں دی۔مطالبہ کیا گیاکہ مذکورہ پراجیکٹ پر فی الفور کام شروع کیا جائے۔
5۔چترال کے شہ رگ شندور کو وزیراعظم ہاؤس سے جاری شدہ دستخطوں میں گلگت بلتستان کا حصہ قرار دینے پر شدید احتجاج کیا گیا۔وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت بھی اس معاملے میں چترال کے عوام کو مطمئن کریں۔چترال کے عوام شندور کو گلگت بلتستان کا حصہ قرار دینے کی سازشوں کو مسترد کرتے ہیں اور موجودہ حکومت کو اس جرم عظیم کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
6۔مہنگائی،بے روزگاری اپنے عروج کو پہنچ چکی ہیں ریاست کی عملدآری کہیں بھی نظر نہیں آرہی۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ موجودہ حکومت پاکستان کے لئے سوائے سیکورٹی ریسک ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔لہذا موجودہ حکومت کو فی الفور ہٹایا جاکر صاف شفاف انتخابات کرائے جائیں۔موجودہ حکومت سوائے جھوٹ بولنے کے،مخالفین کا گلہ دبانے کے،قبر میں سکون فراہم کرنے،جاپان کو جرمنی سے ملانے،بھیگ نہ مانگنے کی قسمیں کھانے کے علاؤبھیک مانگ کے ہڑپ کرنے میں اور پھر اپنے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے یوٹرن لیکر عظیم لیڈر بننے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات