دروش میں غیر مصدقہ خبر نے متوفیہ کے لواحقین سمیت عوام الناس کو بھی پریشانی سے دوچار کردیا۔

Print Friendly, PDF & Email

چترال(نما یندہ چترال میل)چترال میں کورونا وائرس سے ہلاکت کے حوالے سے غیر مصدقہ خبر نے نہ صرف متوفیہ خاتون کے خاندان والوں کو مشکلات سے دوچار کردیا بلکہ اس غیر ذمہ دارانہ فیس بکی خبر کی وجہ سے عوام میں تشویش پھیل گئی۔ تفصیلات کے مطابق بریر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون منگل کی شام ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں انتقال کر گئی، ڈاکٹروں نے متوفیہ کے کورونا سے متاثر ہونے کے حوالے سے شک کا اظہار کیا تھا اور اسکے سیمپل ٹیسٹ کے لئے پشاور بھیجے گئے، احتیاط کے طور پر متوفیہ کو ایس او پی کے تحت سپر خاک کرنے کی ہدایت کی گئی،انکی لاش ریسکیو 1122کی گاڑی میں تدفین کے لئے خیر آباد منتقل کی جارہی تھی کہ اس دوران چترال کے مقامی شخص نے سوشل میڈیا میں ”چترال میں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت اور خیر آباد دروش میں سپر دخاک کرنے“ کی خبر چلادی حالانکہ جس وقت یہ خبر سوشل میڈیا میں چلادی گئی اسوقت تک متوفیہ کی لاش چترال سے منتقل ہی نہیں کی گئی تھی۔ اس خبر کے بریک ہونے کے بعد جب ریسکیو 1122اور ٹی ایم اے دروش کے اہلکار لاش لیکر خیر آباد پہنچ گئے تو وہاں پر بتایا گیا کہ فی الوقت کورونا سے متاثرہ خاتون کو یہاں دفن کرنے کا کوئی بندوبست نہیں لہذا اسے اسکے آبائی علاقے شیشی کوہ یا شوہر کے گاؤں بریر منتقل کیا جائے۔ اس بناء پر متوفیہ کی لاش ایمبولنس میں دروش ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں پربھی لوگوں کا ایک جم غفیر جمع ہوا کہ کورونا سے جان بحق خاتون کی لاش لائی گئی ہے۔ لوگ اس تشویش میں مبتلا رہے کہ اب کیا ہوگا، اسے کہاں دفنایا جائیگا، طریقہ کار کیا ہوگا۔ اس دوران کم از کم دو گھنٹے تک یہ لاش ٹی ایچ کیو ہسپتال دروش میں ریسکیو 1122کے ایمبولنس میں موجود رہی جبکہ ہسپتال کے باہر بڑی تعداد میں لوگ ایک عجیب کشمکش کے عالم میں موجود تھے۔ بالآخر متوفیہ کی لاش کو انکے شوہر کے گاؤں بریر منتقل کیا گیا۔ دروش ہسپتال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ریسکیو اہلکاروں نے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے کسی کو کورونا سے اس خاتون کی ہلاکت کے حوالے سے کوئی بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پریس ریلیز اسوقت تک جاری نہیں کرتے جب تک مصدقہ خبر سامنے نہ آئے۔ واضح رہے کہ متوفیہ خاتون کو دو دن پہلے ہیضے کی شکایت پر دروش ہسپتال لایا گیا تھا اور وہاں سے انہیں کل ہی ڈی ایچ کیو چترال منتقل کیا گیا تھا۔ انکے لواحقین نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے ہسپتال لائے تھے تاہم متوفیہ کو دمے کی شکایت بھی تھی۔ درایں اثناء عوامی حلقوں نے ضلعی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ بلاتحقیق سوشل میڈیا میں خود ساختہ صحافیوں کے ان حرکتوں کا نوٹس لیا جائے کیونکہ اس غیر ذمہ دارانہ حرکت کی وجہ سے نہ صرف متوفیہ خاتون کے خاندان والوں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اس بناء پر لوگوں میں تشویش اور خوف کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ عوامی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کسی مریض کے کورونا وائرس کیوجہ سے انتقال کی خبر محکمہ صحت کے ذمہ دار افسران یا ضلعی انتظامیہ کے ذمہ داران خود مقامی میڈیا کو جاری کریں اور چترال کے لوگوں کو نام نہاد فیس بکی صحافیوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بچائیں۔ عوامی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ ضروری تادیبی کاروائی کرے۔