وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اْسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
جب حقیقت کی نگاہ سے دیکھاجائے عورت کا مقام ماں کے روپ میں جنت، بہن کے روپ میں ایک ذندگی بھر کا غمگسار اور ہمدرد، بیوی کے روپ میں تاحیات ایک مضبوط سہارا اور بیٹی کے روپ میں ایک فرمانبردار اور درد دل رکھنے والی اور ہر حال میں والدین کا ساتھ نبھانے والی عورت کے روپ میں پہچانی جاتی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن بڑے پْرجوش انداز میں منایا جارہا ہے۔اس دن کومنانے کامقصدخواتین کومردوں کے برابرحقوق دلانااورخواتین کے ساتھ ہونے والے ناانصافی اورزیادتی کوختم کرناہے۔ خواتین جوکہ انسانی آبادی کانصف حصہ ہیں انہیں معاشرے میں عام طورپرصنف نازک کہااورسمجھاجاتاہے،انہیں گھرکی زنیت بھی سمجھاجاتاہے۔
بدقسمتی سے اگر وطن عزیز میں دیکھا جائے تو حالات انتہائی مختلف ہیں، گھریلو حالات، غربت، افلاس، تنگدستی، لاعلاجی اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ اور مجبور عورت جب روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے تو وہاں بھی اسے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، اگر ملازمت مل جائے تو سماج میں موجود مردوں کی حاکمیت کے باعث انہیں ہر وقت جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے گھر سے نکل کر نوکری کرنے کی مخالفت کی جاتی ہے جبکہ وہی خواتین روز مرہ کے گھریلو کام کاج میں مصروف رہیں تو گھروالے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
اگر ہم خواتین کے حقوق کودین اسلام کے تناظر میں دیکھیں تو وہاں بھی خواتین کے حقوق پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ان میں معاشرتی، تعلیمی، معاشی، قانونی اور سیاسی حقوق شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرد عورت دونوں ایک دوسرے کو احترام دیتے ہوئے دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جدو جہد کریں۔ اور اس مقصد کے لیے سب کو بلا امتیاز مواقع فراہم کیے جائیں۔
پاکستانی معاشرے میں دیہاتی خواتین کی مظلومیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک شہر کی تعلیم یافتہ عورت کے مقابلے میں ایک دیہات میں بسنے والی عورت کو قانونی، معاشی و معاشرتی سہولیات میسر نہیں۔ اکثر دیہاتوں میں بسنے والی عورت آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا شکارہیں۔ حالانکہ عورت معاشرے کا وہ اہم حصہ ہے جس کی گو دمیں قوموں کی پرورش ہوتی ہے۔
معاشرے میں عورت کو کلیدی اور سربراہی اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔عورت ہر لحاظ سے مرد کے برابر ہے بطور انسان دونوں کا مقام ایک جیساہے۔ عورت معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اور اسی کے دم سے ہر گھر میں رونق اور مسکراہٹ آباد ہے۔ ہرگھرکی شان اور عظمت بھی انھیں کے دم قدم سے ہے اورہرکامیاب مرد کے پیچھے عور ت کاہاتھ ہے۔
اے فخر قوم بہنو عصمت شعار بہنو
مردوں کی ہو ازل سے تم غم گسار بہنو
خواتین معاشرے کا اہم ترین حصہ ہیں اس لئے اْنھیں اْن کے حقوق دینا اور اْن کے مسائل کو حل کرنا ہماری دینی و معاشرتی ذمہ داری ہے۔ یوم خواتین ڈے منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خواتین میں شعور پیدا کیا جائے اور اْنھیں اْن کی معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جائے۔وطن عزیزکے خواتین میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے اْنھوں نے ہر شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اس لئے ہم پر لازم ہے کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ آگے بڑھنے کے مواقع مہیا کئے جائیں۔
مگرافسوس سے کہناپڑتاہے کہ آج کے جدید دور میں بھی اکثرعلاقوں میں عورتوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی نہیں دی جاتی ہے اور مرد کو بچپن سے ہی عورت کا حاکم ہونے کی تربیت دیاجاتاہے۔ جس کی وجہ سے گھریلو ماحول مجموعی طور پر تناؤ کا شکار ہوتاہے اور سماجی رشتے تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں، منگنیوں، طلاقوں اور خودکشیوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔اس ناسورکوختم کرنے کیلئے خواتین کی عالمی کے دن کے موقع پر معاشرے کویہ عہد کرنا چاہیئے کہ وہ انہیں انکا صحیح مقام اور پہچان دلانے میں انکی مدد کریں۔معاشرے اور خاندان کے ترقی میں خواتین کے کردار کی اہمیت کو سمجھیں۔پاکستان کا آئین اور قانون عورتوں کو پروقار،برابری اور محفوظ زندگی کا حق بھی دیتا ہے۔
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش